All About Pakistan

6/recent/ticker-posts

یورپین پارلیمنٹ اور پاکستان...


پنٹاگون کے بعد برسلز میں واقع یورپین پارلیمنٹ کو دنیا کی بااثر ترین عمارت سمجھا جاتا ہے۔ 200 میٹر کے احاطے میں یورپین پارلیمنٹ،یورپین کمیشن اور یورپین کونسل کے دفاتر ایک ہی عمارت میں پھیلے ہوئے ہیں۔ یورپی یونین کے قیام کے بعد فرانس، اٹلی، اسپین اور جرمنی سمیت متعدد ممالک اتفاق رائے سے اس عمارت کا قیام عمل میں لائے تھے جس نے یورپ کے 28 ممالک کو آج تک مضبوطی سے تھاما ہوا ہے۔ یورپین کمیشن انہی 28 ممالک کے بیوروکریٹس پر مشتمل ایک کمیشن ہے جس کی سربراہی ایک کمشنر کرتا ہے۔

جبکہ یورپین کونسل میں یورپ کے 28 ممالک کے سربراہ مملکت شریک ہوتے ہیں اور اس کا حصہ ہوتے ہیں۔ یورپین پارلیمنٹ جس میں پورے یورپ سے مختلف نمائندے عوام کے براہ راست ووٹ سے منتخب ہو کر آتے ہیں۔ یورپین پارلیمنٹ کے تین ہفتے تک اجلاس برسلز جبکہ ایک ہفتہ اسٹاس برگ (فرانس) میں ہوتے ہیں۔مشہور جی ایس پی پلس کی ووٹنگ بھی اسٹاس برگ میں اجلاس کے دوران ہوئی تھی۔

اس وقت یورپین پارلیمنٹ کے ممبران کی تعداد 751 تک پہنچ چکی ہے۔ سب سے زیادہ برطانیہ کے نمائندے اس میں شریک ہوتے ہیں۔ اس اسمبلی کی خوبصورتی یہ ہے کہ ہر 6 ماہ بعد اس کا صدر تبدیل ہوجاتا ہے اور صدارت کسی دوسرے نمائندہ ملک کو چلی جاتی ہے۔ یورپین پارلیمنٹ کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ یہ دنیا کی واحد عوامی نمائندہ اسمبلی ہے جس میں دنیا کے ہر مذہب کے افراد موجود ہیں۔ عظیم نیلسن منڈیلا نے اسی عمارت کے بارے میں کہا تھا کہ یہ دنیا میں جمہوریت کی علامت ہی نہیں بلکہ امن کی بھی ضامن بنتی جا رہی ہے۔ جس نے ان ممالک کو بھی جوڑا ہوا ہے جو دہائیوں تک ایک دوسرے کے خلاف برسر پیکار رہے ہیں۔

گزشتہ روز یورپی یونین کے دعوت نامے پر اس تاریخی عمارت میں جانے کا اتفاق ہوا۔کانچ کی بنی ہوئی گول عمارت میں داخل ہوا تو 28 ممالک کے جھنڈوں کے بیچ میں یورپی یونین کا نیلا جھنڈا آنے والے مہمانوں کا استقبال کر رہا تھا۔ استقبالیہ دروازے پر برطانیہ سے منتخب ہونے والے یورپی پارلیمنٹ کے ممبر سجاد کریم سے ملاقات ہو گئی۔ سجاد کریم یورپین پارلیمنٹ کے صدر کے ہمراہ کسی پریس بریفنگ میں شرکت کے لئے جا رہے تھے۔ یورپین پارلیمنٹ میں دنیا کے جدید ترین اسٹوڈیوز، لائیو نشر کرنے کا نظام اور صحافیوں کے لئے تین شاہکار پریس روم بنائے ہوئے تھے۔

 جہاں پر دنیا کے مشہور نشریاتی اداروں کے معروف صحافی پیشہ وارانہ خدمات میں مگن تھے۔ یہ جان کر خوشی ہوئی کہ ایک درجن سے زائد اسٹوڈیووں میں دنیا بھر سے آنے والا کوئی بھی صحافی پروگرام ریکارڈ کر سکتا ہے۔ پارلیمنٹ کی بلڈنگ میں براہ راست نشریات کےلئے اس قدر جدید آلات نصب تھے کہ پاکستان کے تمام نشریاتی ادارے مل کر بھی ایسا خودکار نظام نہیں بنا سکتے۔ پاکستان کے سرکاری ٹی وی چینلز سے لے کر تمام پرائیویٹ نشریاتی اداروں کے نیوز روم اور ماسٹر کنڑول روم سمیت پی سی آر کا دورہ کیا ہے، یورپین پارلیمنٹ میں موجود میڈیا کوریج کے حوالے سے جدید نظام دیکھ کر آنکھیں دنگ رہ گئیں۔

ایک رکن پارلیمنٹ سے دریافت کیا کہ 12 اسٹوڈیوز سمیت متعدد جدید آلات کی ایک پارلیمنٹ میں موجودگی کی وجہ سمجھ میں نہیں آئی ۔جس پر رکن پارلیمنٹ مسکرائے اور کہنے لگے کہ یہاں پر کوریج کرنے کے لئے آنے والے صحافیوں کو یہ تمام سہولتیں دینے کی وجہ یہ ہے کہ دنیا کے دور افتادہ علاقوں سے آنے والے صحافیوں کو نشریاتی آلات،کیمرے وغیر ہ ساتھ نہ لانے پڑیں بلکہ یہ تمام سہولتیں بالکل مفت انہیں اس عمارت میں میسر ہیں۔ اگر کسی ادارے کا کوئی اینکر یورپین پارلیمنٹ کے اسٹودیو سے لائیو پروگرام نشر کرنا چاہے تو اس کے لئے بھی سہولت موجود ہے کہ اپ لنکنگ کےلئے فریکونسی نمبر اپنے نیوز چینل کو فراہم کردیں اور وہ سیٹلائٹ سے ہی نشر ہونے والے پروگرام کو کیچ کر لیں گے۔ 

یہ وہ سہولتیں ہیں جو ترقی یافتہ قومیں اپنی پارلیمنٹ کو فراہم کرتی ہیں۔ ایسے حالات کو دیکھ کر دل میں ہوک سے اٹھتی ہے کہ ایک ہماری پارلیمنٹ ہے جس میں شہر اقتدار کو چھوڑ کر ملک کے دور افتادہ علاقے سے آنے والے صحافی کی انٹری بھی مشکل سے کی جاتی ہے۔ جدید سہولتیں دینا تو بہت دور کی بات ہے۔پاکستان کے پارلیمنٹ کی پریس گیلری ہمارے حکمرانوں اور نظام پر ایک طمانچہ ہے۔

ابھی یہی سوچ رہا تھا کہ سجاد کریم کی پولیٹیکل سیکریٹری تشریف لے آئیں۔ سیکریٹری صاحبہ کے ساتھ سجاد کریم کے دفتر کی جانب روانہ ہو گیا۔ 2 کرسیوں اور ایک میز پر مشتمل سادےدفتر میں دنیا کی مضبوط ترین پارلیمنٹ کا ممبر اپنے کام میں مگن تھا۔ سجاد کریم جو یورپی پارلیمنٹ میں فرینڈز آف پاکستان کے صدر بھی ہیں جبکہ یورپین پارلیمنٹ کے لیگل ایڈوائزر اور ترجمان بھی ہیں۔ سجاد کریم سے گفتگو شروع ہوئی۔وقت کی اہمیت کا مجھے احساس تھا کہ یہ پاکستان کی طرح نہیں ہے کام کے وقت یہاں کے ارکان پارلیمنٹ صرف کام کرتے ہیں۔پاکستان کو جی ایس پی پلس دلوانے میں سجاد کریم کا کلیدی کردار تھا۔اس لئے جی ایس پی پلس پر گفتگو کی کہ کیا سزائے موت کے دوبارہ آغاز سے پاکستان کو جی ایس پی کا درجہ ختم کردیا جائے گا۔جس پر سجاد کریم مسکرائے اور کہنے لگے کہ نہ ہی ایسا ہوگا اور نہ ہی ہم ایسا ہونے دینگے۔

اگر اس پارلیمنٹ نے ایسے کسی بھی اقدام کی طرف پیش قدمی کی تو وہ اور ان کے ساتھی چٹان کی طرح کھڑے ہو جائیں گے۔ لیکن پاکستان کو بھی کچھ توجہ دینا ہوگی۔ موقع کی نزاکت سے فائدہ اٹھاتے ہوئے میں نے پوچھ ہی لیا کہ اگر اللہ نہ کرے مارشل لاء نافذ کر دیا جائے تو پھر آپ کا کیا جواب ہوگا۔ سجاد کریم جذباتی انداز میں کہنے لگے کہ کاش ایسا نہ ہو اگر ایسا ہوا تو جی ایس پی پلس تو دور کی بات ہے پوری دنیا پاکستان کے کردار پر شک کرنے لگے گی۔ 

سجاد کریم نے جس انداز میں گفتگو کی مجھے سمجھ آگئی کہ پاکستان میں غیر آئینی اقدام کو آج بھی دنیا نفرت کی نگاہ سے دیکھتی ہے۔ دنیا کے ترقی یافتہ ممالک کی خواہش ہے کہ پاکستان میں بھی بھارت کی طرز کی جمہوریت، قانون کی بالادستی اور سب سے بڑھ کر سویلین اداروں کا احترام پیدا ہو۔ جو شاید آج کے پاکستان میں نہیں ہے۔

یورپین پارلیمنٹ سے تو باہر آچکا تھا مگر اب تک سجاد کریم کی گفتگو پر غور کرنے کی کوشش کررہا تھا کہ ایسی کیا وجہ ہے کہ پوری دنیا میں جہاں بھی غیر آئینی و غیر قانونی اقدام کی بات کی جاتی ہے۔ پاکستان سرفہرست ہوتا ہے۔ یورپین پارلیمنٹ بھی یہ کہتی ہے کہ سزائے موت پر جی ایس پی پلس کا درجہ ختم نہیں ہوگا البتہ مارشل لا پاکستان کے لئے تمام دروازے بند کر دے گا۔ اس دعا سے اس کالم کا اختتام کہ کاش پاکستان میں بھی جمہوریت کے علمبردار جمہوری اداروں کو مضبوط کرنے میں اپنا کردار ادا کریں۔ مگر پھر خیال آتاہے کہ پہلے ہمیں فوجی عدالتوں، 21 آئینی ترمیم اور پروٹیکشن آف پاکستان آرڈیننس سے تو فرصت مل جائے۔

حذیفہ رحمان
"بہ شکریہ روزنامہ ’’جنگ

Post a Comment

0 Comments