All About Pakistan

6/recent/ticker-posts

کیا عمران خان اس محاز آرائی سے کوئی سبق سیکھیں گے ؟....

پاکستانی سیاست میں غیر اخلاقی زبان کا استعمال کوئی نئی بات نہیں ہے۔ یہ روش کافی پرانی ہے۔ صرف فرق اتنا ہے کہ اب الیکٹرانک میڈیانے اس کو براہ راست عوام کے سامنے پیش کر دیا۔ اس لئے شور زیادہ ہے۔ گو کہ ایم کیو ایم کے قائد الطاف حسین نے اپنی باتوں پر قسط وار معذرت کا سلسلہ شروع کیا ہوا ہے۔ پہلے قانون نافذ کرنے والے اداروں سے معذرت کی گئی۔ پھر دھرنے کی شریف خواتین سے معذرت کی گئی۔

 محترمہ شیریں مزاری صاحبہ سے بھی معذرت کر لی گئی ہے۔ لیکن ابھی بھی معذرت باقی ہے۔ وہ عمران خان سے معذرت کے لئے تیار نہیں ۔ بلکہ ابھی تک تا دم تحریر ان کا یہ موقف ہے کہ ابھی تو انہوں نے عمران خان کے بارے میں کچھ کہا ہی نہیں ۔ اور اتناشور مچ گیا۔ لیکن یہ بات بھی اپنی جگہ حقیقت ہے کہ حال ہی میں دھرنا سیاست کے دوران سب کو عمران خان پر اعتراض تھا کہ وہ کنٹینر پر کھڑے ہو کر غیر مہذب زبان استعمال کرتے ہیں۔ کسی کی عزت نہیں کرتے۔ انہوں نے کنٹینر پر کھڑے ہو کر سب سے پہلے قومی اسمبلی میں قائد حزب اختلاف خورشید شاہ کو وزیر اعظم میاں نواز شریف کا چپڑاسی کہا۔

 یہ وہ وقت تھا جب خورشید شاہ حکومت اور دھرنے والوں کے درمیان پل کا کردار ادا کرنے کے لئے کوشاں تھے۔ عمران خان نے محمود خان اچکزئی، مولانا فضل الرحمٰن سمیت دیگر قومی قیادت کے خلاف بھی بہت غیر مہذب زبان استعمال کی۔ وزیر اعظم میاں نواز شریف،ان کے اہل خانہ ، وزراء اور دیگر ٹیم کے خلاف سخت یا غیر مہذب زبان کا تو ریکارڈ قائم کیا گیا۔ عمران خان کی اس غیر مہذب زبان کے خلاف مسلم لیگ(ن) تمام دھرنے کے دوران کا فی حد تک خاموش رہی۔محترم پرویز رشید جواب پر جواب دے رہے ہیں ۔ تب خاموش رہے۔ وزیر اعظم میاں نواز شریف نے کسی بھی سخت بات کا کوئی جواب نہیں دیا۔ دیگر قومی قیادت نے کسی حد تک جواب دیا ۔ لیکن اتنی شدت سے نہیں کہ ماحول گرم ہو سکے۔ اس لئے عمران خان کا پلڑا بھاری رہا۔ 

مسلم لیگ (ن) نے نہایت مہذب زبان میں بار بار یہ احتجاج ضرور کیا،کہ دھرنے میں غیر مہذب زبان استعمال ہو رہی ہے۔ دھرنوں کے دوران ناچ گانے کے کلچر پر بھی احتجاج ہوا۔ بالخصوص مولانا فضل الرحمٰن نے اس پر بہت تنقید کی۔ لیکن یہ تنقید بھی حدود اور اخلاق کے دائرے میں ہی تھی۔ اس طرح عمران خان گزشتہ چھ ماہ سے ایک ایسی سیاست کر رہے تھے ۔ جس میں سب عمومی طور پر ان کے سامنے خاموش تھے۔ اور وہ اکیلے ہی دھاڑ رہے تھے۔ لیکن اب صورتحال کافی مختلف ہو گئی ہے۔ ایم کیو ایم کے قائد الطاف حسین نے تحریک انصاف کے بارے میں غیر مہذب زبان استعمال کی۔ 

اس پر اتنا شور نہیں مچنا تھا۔ لیکن جب عمران خان نے الطاف حسین کو جواب دیااور اسی لہجہ میں جواب دیاتو شور زیادہ مچ گیا۔ جواب میں ایم کیو ایم کی ساری قیادت نے پریس کانفرنس پر پریس کانفرنس کر کے ماحول کو گرما دیا۔ پھر ریلی بھی نکالی گئی۔ اس طرح ماحول اب گرم ہے۔ لیکن ایم کیوایم نے عمران خان کے ساتھ محاز کھولنے سے پہلے پیپلز پارٹی سے صلح کر لی۔ سندھ حکومت میں دوبارہ شمولیت کا اعلان کر دیا۔ اس وقت ایک عمومی رائے یہی ہے کہ الطاٖ ف حسین صاحب کی زیادتی ہے۔ انہوں نے زیادہ غیر مہذب زبان استعمال کی۔ انہوں نے بھی قانون نافذ کرنے والے اداروں سے تو معافی مانگ لی ہے ۔

 شیریں مزاری سمیت تما م شریف خواتین سے معافی مانگ لی۔ لیکن وہ ا بھی بھی تحریک انصاف کے چیئر مین عمران خان سے معافی مانگنے کے لئے تیار نہیں۔سوال یہی ہے کہ اب کیا ہو گا۔ ایک تاثر یہ ہے کہ ایم کیو ایم کی سیاست دھوپ چھاؤں کی طرح آج گرم تو کل نرم۔ وہ کل تک پیپلز پارٹی کی سندھ حکومت کے خلاف تھے ۔ آج دوبارہ شامل ہو رہے ہیں۔ وہ دھرنوں کے دوران وزیر اعظم میاں نواز شریف سے استعفیٰ کا بھی مطالبہ کرتے رہے اور پھر ان کا گورنر وزیر اعظم میاں نواز شریف کا استقبال بھی کرتا ہے۔ اسی طرح عمران خان نے پہلے بھی کئی دفعہ ایم کیو ایم کے خلاف محاز کھولا ہے وہ لندن تک گئے ۔

 لیکن پھر خاموش ہو گئے۔ انہوں نے اپنی خاموشی کی کئی تو جیہات پیش کی ہیں۔ لیکن شائد وہ جاندار نہیں ہیں۔ کسی بھی لیڈر کو اصولی موقف پر مصلحت پسندی کا شکار نہیں ہو نا چاہئے۔ لیکن عمران خان کی سیاست بھی دھوپ چھاؤں اور آج نرم تو کل گرم کی طرح ہے۔ اس لئے یہ دو ایک جیسے لوگوں کے درمیان مقابلہ ہے۔ یہ بات بھی درست ہے کہ عمرا ن خان بھی گفتگو کے دوران اخلاق کی حد کو عبور کرتے ہیں۔ لیکن ان کی پارٹی کی باقی قیادت ایسا نہیں کرتی۔

 شاہ محمود قریشی سمیت دیگر گفتگو کے دوران اخلاقی حدود کو ملحوظ خاطر رکھتے ہیں۔ لیکن ایم کیو ایم اس میدان میں اپنی شہرت رکھتی ہے۔ وہاں جب لیڈر نے غیر مہذب زبان استعما ل کی تو سب یک زبان لبیک کہتے ہیں۔ تا ہم یہ امید تو نہیں کہ ایم کیو ایم اس سے کوئی سبق سیکھے گی ۔ تا ہم یہ امید کی جا سکتی ہے کہ عمران خان کو یہ احساس ہو جائے گاکہ انہیں گفتگو کے دوران اخلاقی حدود کو ملحوظ خاطر رکھناچاہئے ۔ یہی پاکستانی سیاست کے لئے بہتر ہے۔

مزمل سہر وردی

Post a Comment

0 Comments