All About Pakistan

6/recent/ticker-posts

مرحوم شاہ عبداللہ کا سفرِ زندگی

مرحوم شاہ عبداللہ بن عبدالعزیز کی فکر پر ان کے والد اور جدید سعودی عرب کے بانی شاہ عبدالعزیز السعودکا گہرا اثر تھا جس کے باعث وہ مذہب، تاریخ اور عرب ورثے کے بارے میں گہری عقیدت رکھتے تھے۔ انہوں نے اپنی زندگی کے ابتدائی ماہ و سال صحرا میں بدو قبائل کو ان کے ماضی کی روشن اقدار، بہادری اور فراخ دلی کے بارے میں بتاتے ہوئے گزارے جس کے باعث ان میں اپنے عوام کی خدمت کا جذبہ پیدا ہوا۔

 شاہ عبداللہ کے سیاسی کیریئر کا آغاز 1962ء میں اس وقت ہوا تھا،جب اس وقت کے سعودی فرمانروا شاہ فیصل نے ان کو نیشنل گارڈ کے کمانڈر کے طور پر منتخب کیا۔ بعدازاں 1975ء میں جب شاہ خالد بادشاہ کے طور پر تخت نشین ہوئے تو شاہ عبداللہ نائب وزیراعظم دوم بن گئے۔ وہ قدم بہ قدم سیاسی منازل طے کرتے رہے۔ ان کی سحر انگیز شخصیت نے نہ صرف سعودی شاہی محل کے اراکین کو ان کی جانب متوجہ کیا بلکہ عام سعودی شہریوں نے بھی ان سے بہت سی توقعات وابستہ کرلیں۔ 1982ء میں جب شاہ فہد تخت نشین ہوئے تو انہوں نے شاہ عبداللہ کو ولی عہد اور نائب وزیراعظم اول بنا دیا۔ 

اس عہدے پر انہوں نے نہ صرف کابینہ کے اجلاسوں کی صدارت کی بلکہ حرمین الشریفین کے نائب نگران بھی بن گئے۔ 2005ء میں شاہ عبداللہ سعودی عرب کے چھٹے بادشاہ کے طور پر تحت نشین ہوئے، انہوں نے اپنے عہدِ حکومت کے دوران ترقیاتی منصوبے شروع کرنے پر خصوصی توجہ دی ‘ شاہ عبداللہ نے نہ صرف ملک کی معاشی ترقی کے لیے مختلف اقدامات کیے بلکہ تعلیم، صحت، تعمیراتی اور سماجی منصوبوں کی جانب بھی توجہ مبذول کی جس کے باعث سعودی عرب میں ترقی کے ایک نئے دور کا آغاز ہوا۔شاہ عبداللہ نے چار بڑے معاشی شہر قائم کیے جن کے باعث معاشی ترقی کے در وا ہوئے۔

 انہوں نے تعلیمی شعبہ کی ترقی کی جانب بھی توجہ مرکوز کی اور مرد و خواتین کے لیے اعلیٰ تعلیم کے مختلف ادارے قائم کے جن میں شاہ عبداللہ یونیورسٹی آف سائنس اینڈ ٹیکنالوجی اور شہزادی نورہ بنتِ عبدالرحمان یونیورسٹی برائے خواتین شامل ہیں لیکن ان کا جوش و ولولہ صرف ان دو شعبوں تک محدود نہیں رہا بلکہ ان کا مذہب سے لگائو بھی کسی سے ڈھکا چھپا نہیں تھا۔ انہوں نے حرمین پاک کی توسیع کے منصوبے بھی شروع کیے۔ شاہ عبداللہ کا ایک اہم کارنامہ سعودی عرب میں باضابطہ عدالتی نظام قائم کرنا ہے جب کہ انہوں نے شاہی ولی عہد مقرر کرنے کے لئے ایک طریقہ کار بھی وضع کیا۔ 

قبل ازیں 2005ء میں ولی عہد کی حیثیت سے وہ ملک کی میونسپل کونسلوں کے انتخابی عمل کا قریب سے جائزہ لے چکے تھے۔ شاہ عبداللہ عالمی سفارت کاری کے محاذ پر ہمیشہ سرگرم رہے۔ انہوں نے ہر عالمی فورم پر عرب و اسلامی ریاستوں کا دفاع کیا۔ وہ عالمی امن کے داعی رہے جس کے باعث انہوں نے دنیا کے اہم ترین مذاہب کے درمیان مکالمے کی روایت کو فروغ دیا ۔ یہ ان کی کاوشوں کے ہی ثمرات تھے کہ سپین کے دارالحکومت میڈرڈ میں ورلڈ کانفرنس آن ڈائیلاگ اور بعدازاں اقوامِ متحدہ کے تحت کانفرنس آن ڈائیلاگ کا انعقاد کیا گیا ‘ ان کی یہ جدوجہد عالمی تنازعات کے حل میں ایک سنگِ میل کی حیثیت رکھتی ہے۔

شاہ عبداللہ کی ہمیشہ یہ کوشش رہی کہ عرب و اسلامی دنیا کے مابین تنازعات جنم نہ لیں جس کے باعث انہوں نے ان کے حل کے لیے ہمیشہ سرگرم کردار ادا کیا۔ انہوں نے مشرق وسطیٰ میں امن کے قیام اور خاص طور پر فلسطینیوں کے حقوق کے لیے نہ صرف آوازبلند کی بلکہ اس کے لیے عملی جدوجہد بھی کی۔ شاہ عبداللہ کا ایک اہم کارنامہ دارفر پر سوڈان اور چاڈ کے مابین مصالحت کروانا بھی تھا۔ شاہ عبداللہ عالمی تعاون کے فروغ کے زبردست حامی تھے جس کے لیے انہوں نے سعودی عرب میں کئی عالمی سیمینار اور کانفرنسوں کا انعقاد کیا۔ وہ ہمیشہ اس بات کے حامی رہے کہ تیل کی دولت کو دنیا کی تقریباً سات ارب آبادی کی فلاح و بہبود کے لیے استعمال میں لایا جانا چاہیے جس کے لیے انہوں نے 2008ء میں جدہ میں عالمی توانائی سمٹ کا انعقاد کیا تاکہ تیل کی عالمی قیمتوں میں استحکام برقرا ر رہے۔ 

شاہ عبداللہ کا دہشت گردی کے بارے میں مؤقف بہت واضح تھا‘ وہ ہمیشہ دہشت گردوں کی جانب سے معصوم زندگیوں کے ضیاع کی مذمت کرتے رہے جب کہ شدت پسند گروہوں کی سرگرمیوں کو بھی ناپسند کیا کرتے۔ ریاض میں فروری 2005ء میں ہونے والی انسدادِ دہشت گردی کی عالمی کانفرنس میں انہوں نے دہشت گردی سے نپٹنے کے لیے عالمی تعاون کی ضرورت پر زور دیا۔ شاہ عبداللہ کا صحرا سے رومان کبھی کم نہیں ہوا‘ ان کو گھڑ سواری کابے حد شوق تھا۔ انہوں نے گھوڑوں کی نایاب عرب نسل کی افزائش کی جس کے لیے انہوں نے ریاض میں ایک کلب بھی بنایا۔

 شاہ عبداللہ کا ایک شوق مطالعہ بھی رہا جس کووہ زندگی بھر بہت زیادہ اہمیت دیتے رہے۔ انہوں نے نہ صرف مغربی فلسفیوں کی کتابوں کا مطالعہ کر رکھا تھا بلکہ مسلم مفکرین کی کتابوں کا ایک بڑا ذخیرہ بھی ان کے ذاتی کتب خانے کا ذخیرہ تھا۔ انہوں نے اپنے اس شوق کی تکمیل و فروغ کے لیے ریاض اور مراکش کے شہر کاسا بلانکا میں بھی لائبریریاں قائم کیں۔ شاہ عبداللہ کی موت نہ صرف اسلامی دنیا بلکہ عالمی امن کے لیے ایک بڑا دھچکا ہے۔ دنیا ایک ایسے عظیم رہنما سے محروم ہوگئی ہے جنہوں نے ہر محاذ پر امن کے علم کو تھامے رکھا۔ 

ان کے دور میں پاکستان اور سعودی عرب ایک دوسرے کے مزید قریب آئے اور پاکستان سعودی عرب کے اہم ترین غیر عرب اتحادی کے طور پر نمایاں ہوا۔ ان کی موت سے پیدا ہونے والا خلا شاید کبھی پورا نہ ہو لیکن امید کی جارہی ہے کہ شاہ سلمان بن عبدالعزیز ان کی کمی محسوس نہیں ہونے دیں گے اور سعودی عرب کی سفارتی پالیسیوں میں توازن برقرار قائم کرتے ہوئے عالمی امن کے لیے فعال کردار ادا کرتے رہیں گے۔ 

علی عباس

 

Post a Comment

0 Comments