All About Pakistan

6/recent/ticker-posts

بقراط - حیات ، فلسفہ اور نظریات

محققین اور مورخین نے اپنی کوشش سے بقراط کے تمام تصنیفی کام کو جمع کیا ہے اور پورے وثوق سے کہا ہے کہ قدیم یونانی اطباء میں صرف بقراط ہی ایسا صاحب علم طبیب اور سرجن تھا جس نے ستر کے قریب ابتدائی طب پر کتابیں لکھیں۔ان کتابوں سے بقراط کی طبی تعلیمات کا پورے طور پر احاطہ ہوتا ہے۔ کچھ محققین کا کہنا ہے کہ یہ سب تصنیفات تنہا بقراط کی نہیں ہیں بلکہ اس میں سے کچھ اس کے شاگردوں کی ہیں جبکہ محققین کا ایک گروہ کہتا ہے کہ بقراط سے منسوب کچھ کتابیں بقراط نے نہیں لکھیں بلکہ بقراط کی موت کے صدیوں بعد لکھی گئیں۔ 

کیونکہ ان کتابوں کے مضامین قدیم یونانی سے کافی مختلف ہیں۔ بقراط سے منسوب کتب کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ یہ سب کی سب بقراط کی تصانیف نہیں ہیں بلکہ ان ستر کتابوں کو انیس مختلف لوگوں نے لکھا ہے اور بقراط سے منسوب کر دیا ہے۔ان تمام کتابوں اور مقالوں میں بقراط کی تکنیک اور اصولوں کو اپنایا گیا ہے، لیکن یہ بات طے ہے کہ بقراط کی ذاتی تصنیف ہے کیونکہ اس کا اصل مخطوطہ اب بھی یونان کی لائبریری میں محفوظ ہے Corpus کے حوالے سے اس کے کئی مقالات ہیں۔

 بقراط کے تصنیفی کام کو تیسری صدی عیسوی میں مرتب کیا گیا اور یہ تمام مرتب شدہ کام اسکندریہ کی لائبریری میں ہوا: بیماری کی پیشگی علامات کی کتاب:بقراط کی اہم ترین کتاب ہے۔ اس کتاب کے حوالے سے بقراط انتہائی ذہین اور دانشمند نظر آتا ہے۔ اس کتاب میں اس نے انسان کے جسم، عادات، رویوں، انداز گفتگو اور چھوٹی سے چھوٹی تبدیلیوں کے حوالے سے تفصیلی طور پر بیان کیا ہے۔ مریض کا طبیب پر اعتماد کرنا ضروری ہے: ایک طبیب جب اپنے مریض کی موجودہ حالت پر غور کرتا ہے تو اس معمولی سے معمولی علامات کو مدنظر رکھتے ہوئے مریض کو اگر ماضی میں کوئی بیماری لاحق تھی تو اس کے بارے میں بھی معلوم ہو سکتا ہے۔ 

جب طبیب مریض کو اس کی ماضی کی بیماری کے بارے میں بتائے گا تو مریض کا طبیب پر اعتماد بڑھ جائے گا۔ اس طرح مریض کے اعتماد اور اعتقاد کی وجہ سے اس کی ذاتی فطری شفائی قوت بیدار ہو کر مریض کے لیے شفایاب ہونے میں زیادہ مدد گار ہوگی۔ طبیب کو صرف مرض کی دوا تجویز کرنا ہوگی اور طب کے قواعد کے مطابق مریض کو ہدایات دینا ہوں گی جس کے بعد مریض شفایاب ہونا شروع ہو جائے گا۔ ایک قابل طبیب مریض کی موجودہ بیماری کی تشخیص کے علاوہ مریض پر مستقبل میں حملہ آور ہونے والی بیماری کے بارے میں بھی بہت کچھ بتا سکتا ہے۔ مریض کو مستقبل میں آنے والی بیماریوں سے آگاہی: جب موجودہ بیماری سے طبیب مریض کی گزشتہ بیماری کے بارے میں جان سکتا ہے تو وہ ان تمام حالات و واقعات، مریض کی عادات اور کام کی نوعیت اور جس ماحول میں مریض رہتا ہے طبیب ان تمام سے پیشگی طور پر مریض پر آنے والی بیماری کے بارے میں بھی جان سکتا ہے۔

 اس طرح طبیب حفظ ماتقدم کے طور پر اس مریض کی مستقبل کی بیماری کے لیے بھی قواعد طب کے مطابق دوا تجویز کر سکتا ہے۔ اس طرح اگر ماضی میں کسی بیماری سے احتیاط برتنے میں کوتاہی کی ہے تو آئندہ کے لیے اس کو محتاط کیا جا سکتا ہے۔ جسمانی معائنہ اور عادات: مریض کے چہرے پر ہونے والی معمولی رنگت کی تبدیلی پر بھی غور کرنا چاہیے، کیونکہ معمولی تبدیلی بھی بہت بڑی بیماری کا پیش خیمہ ہو سکتی ہے۔

وہ اس لیے کہ ہر قسم کی بیماری انسانی جسم میں تبدیلیاں ضرور لاتی ہے۔ مریض کا معائنہ بہت احتیاط سے کرنا چاہیے۔ مریض کی آنکھوں کے اندر بھی بیماری کی علامات ہو سکتی ہیں اس لیے مریض کی آنکھوں ناک، اور مریض کے رویے اور عادات میں پیدا ہونے والی تبدیلیوں کو بھانپ کر بیماری کی شدت، نوعیت اور اس کے صحت مند ہونے کا پوری طرح اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔ 

سانس، پسینہ اور بخار میں دانتوں کا ٹکرانا:بقراط کا کہنا ہے کہ مریض کو سانس لینے میں اگر دقت ہو یا سانس بہت تیزی سے لیتا ہو تو یہ بھی اس کی بیماری کی شدت، نوعیت اور آئندہ بیماری کے بارے میں بہت اہم پیشگی علامات ہیں۔ جبکہ مریض کو ٹھنڈے بدن پر پسینہ آئے تو اس سے بھی مریض کے مرض کے بارے میں بہت کچھ جانا جا سکتا ہے اور مریض کی ان علامتوں سے دوا تجویز کرنے میں بہت آسانی رہتی ہے جبکہ ایسے بخار بھی ہیں جن کی وجہ سے دانت ٹکراتے ہیں جوکہ طبیب کے لیے اہم علامت ہے۔ 

بخار، درد اور رنگت میں تبدیلی: بقراط نے بخار کی مختلف قسموں کو بیان کرکے ان کی علامات سے تشخیص کرنے کا ذکر کیا ہے۔ جبکہ مریض کے جسم میں ہونے والی دردیں اور اس کی رنگت میں تبدیلی بھی تشخیصِ علاج میں اہم علامات ہیں۔ بقراط نے مندرجہ بالا جو علامات تحریر کی ہیں، اس کا کہنا ہے کہ اگر ان تمام علامات کو مدنظر رکھا جائے تو ایک طبیب اپنے مریض کا علاج اور اس پر آنے والے دنوں کی بیماریوں کے بارے میں بھی پیشگی طور پر بتا کر اس کو حفظ ماتقدم کے حوالے سے بہت فائدہ پہنچا سکتا ہے۔ بیماری کی پیشگی علامات کے بارے میں اس نے بہت تفصیل سے لکھا ہے، لیکن اس کی یہ تمام ہدایات بہت ہی گڈمڈ اور کنفیوز کرنے والی ہیں۔ اس لیے اس کی ان باتوں کو باقاعدہ ایک  Chart کے ساتھ الگ الگ کرکے قواعد طب کو اخذ کیا جا سکتا ہے۔ اس کتاب کی تفسیر جالینوس نے بھی بہت شرح بسیط سے لکھی ہے، لیکن عربی سے کئے گئے تراجم میں بہت زیادہ ابہام موجودہے۔ 

 کتاب ’’بقراط:حیات ، فلسفہ اور نظریات‘‘ سے مقتبس 

   

Post a Comment

0 Comments