All About Pakistan

6/recent/ticker-posts

امریکی سیاہ فام اور پاکستان کے اندھے لوگ......


پچھلے دنوں امریکا میں ایک سیاہ فام امریکی نوجوان کو ہلاک کرنے والے سفید فام پولیس اہلکار کو امریکی جیوری نے سزا دینے کے بجائے بری کیا تو امریکا کے سیاہ فام طبقے میں سخت رد عمل سامنے آیا۔ سفید فام پولیس اہلکار کے بری ہو جانے اور اس پر کالوں میں پیدا ہونے والی بے چینی نے ایک مرتبہ پھر ثابت کر دیا کہ اقتدار کو سفید فام امریکیوں کے لیے مخصوص سمجھنے اور رکھنے کے جس ''عقیدے'' کا اظہار پرانے وقتوں کے نسل پرست امریکا نے اپنے ایوان اقتدار کو 'وائٹ ہاوس' کا نام دے کر کیا تھا براک اوباما کی صورت میں اس کے پہلے سیاہ فام صدر کے بعد امریکا میں سفید فاموں اور سیاہ فاموں کے درمیان ایک مرتبہ پھر تضاد بڑھنے والا ہے۔

بہت سوں کے لیے یہ خیال قابل قبول نہیں ہو سکتا۔ لیکن امریکی سیاہ فاموں میں پائی جانے والی ''فرسٹریشن'' کی سطح کیا ہے، اس کا اندازہ اٹھارہ سالہ مقتول کالے کے دکھی والدین کے بیان سے کیا جا سکتا ہے۔ ان دکھے ہوئے دل والے کالے امریکی والدین نے جیوری کے سفید فام امریکی پولیس اہلکار کی براءت پر کہا ہے ''ہمیں اس نظام کو درست کرنے کے لیے مل کر کام کرنے کی ضرورت ہے جس نے ایسا ہونے دیا۔''

بلاشبہ امریکا میں سیاہ فاموں کے ساتھ پے در پے ہونے والے ایسے واقعات کے جاری رہنے کے قوی اشارے ہیں۔ وجہ صاف ہے کہ امریکا میں اقتدار کے مرکز کو''وائٹ ہاوس'' سے تعبیر کیا گیا ہے۔ نسل پرستی کی ایسی مضبوط علامت کے ہوتے ہوئے امریکا میں کالی اور گوری نسلوں کی تفریق کے خاتمے کے لیے بہت کچھ کیا جانا باقی ہے۔
لیکن امریکا کے بجائے اگر اہم اپنے وطن عزیز پاکستان پر نظر ڈالیں تو یہاں کالے اور گورے کی امتیاز کا چلن تو نہیں لیکن راعی اور رعایا، حکمران اور محکوم ، مراعات یافتہ طبقے اور محروم طبقات کی تفریق کے عملی مظاہر صبح شام نظر آتے ہیں ۔ واقعہ یہ ہے کہ ان واقعات نے ہمارے معاشرے کو عملاً ظالم اور مظلوم میں تقسیم کر رکھا ہے۔

ایک جانب معاشرے کے وہ طبقات ہیں جن کی حیثیت عملا معاشرے میں بادشاہوں اور راجوں مہاراجوں والی ہے۔ جبکہ دوسری جانب وہ ہیں جن کی حیثیت محض مظلوموں، محکموموں اور غلاموں کی ہے۔ اس امتیاز کی بنیادی وجہ دولت کی غیر منصفانہ تقسیم ہے۔ جس نے اہل دول اور متمول لوگوں کو غریب، محروم اور پسماندہ طبقات کے سیاہ سفید کا مالک بنا دیا ہے۔ سرکاری مشینری اور سرکاری وسائل پہلے طبقے کی صوابدید اور خدمت کے لیے مختص ہو کر گئے ہیں۔ آسانیاں ایک طرف اور مشکلات دوسری جانب کے لیے ہیں۔

پہلا طبقہ کسی وقت چاہے تو کمال مہربانی کر کے سرکاری اور قومی وسائل میں سے چند دانے ان محروم طبقات کو حاتم طایانہ انداز میں عطا کر دے، یہ عطائے شاہانہ کبھی بے طلب بھی ہو جاتی ہے اور کبھی طلب کے باوجود ممکن نہیں ہوتی۔ بلکہ عوامی مطالبات شاہانہ طبیعتوں پر ناگوار بھی گذرتے ہیں۔ جیسا کہ بدھ کے روز روزگار مانگنے والے نابیناوں کے ساتھ ہوا ۔

پاکستان کے دل لاہور میں نابینا افراد نے عالمی سطح پر منائے جانے والے یوم معذوراں کے موقع سے فائدہ اٹھاتے ہوئے اپنے لیے روزگار کا مطالبہ کر دیا۔ بس یوں سمجھیے کہ اندھے کو اندھیرے میں بڑی دور کی سوجھی والی بات بات سمجھی گئی۔ جب ملک کے وزیر اعظم میاں نواز شریف افغان عوام اور دنیا کو امن کی دولت دینے کے لیے لندن میں موجود تھےاور صبح شام خوشحالی کے اعلانات بانٹنے والے وزیر اعلیٰ میاں شہباز شریف قطر میں موجود تھے تو یہ نابینا لوگ لاہور پریس کلب کے باہر جمع ہوئے کہ کلب چوک تک اپنے لیے نوکری کا مطالبہ کرتے ہوئے مارچ کریں ۔ لیکن ''گڈ گورنس'' کی گنگا جمنا میں نہائی پولیس کی پولیس گردی کی زد میں آ گئے۔

پہلے تو پولیس نے ''پولیس کا ہے فرض مدد آپ کی'' کی بنیاد پر ان نابیناوں کو راستہ بھٹکانے کا اہتمام کیا اور انہیں لاہور پریس کلب سے ڈیوس روڈ کے راستے کلب چوک تک جانے کے بجائے ایجرٹن روڈ اور ایبٹ روڈ کی طرف موڑ دیا ۔ بقول نابینے شہری خرم بٹ کے نابینے لوگوں کا جلوس کے پولیس کی اس ''رہنمائی'' کے باعث صبح ساڑھے نو بجے سے ایک ڈیڑھ بجے دوپہر تک شملہ پہاڑی کے گرد چکر کاٹتا رہا۔ لیکن کلب چوک نہ آیا تو انہیں سمجھ آئی کہ پولیس نے ان کے ساتھ کیا ہاتھ کیا ہے۔ تنگ آئے ان نابیناوں نے اس دوران پنجاب حکومت کے ترجمان زعیم قادری سے رابطے کی بھی مسلسل کوشش کی ۔ 

بقول خرم بٹ کے کئی گھنٹوں کے بعد ان سے فون پر رابطہ ہوا تو انہوں نے خود آ کر بات سننے یا نابیناوں کے وفد کو اپنے پاس بلانے کے بجائے ان کی ڈی سی او کی طرف رہنمائی کر دی۔ گویا جس عوام نے زعیم قادری اور ان کی جماعت کو ووٹ دے کر ملک کی باگ ڈور ان کے حوالے کی تھی اس حکومت کے ترجمان نے حکومت کی بہترین ترجمانی کرتے ہوئے اسی عوام کے ایک قابل رحم طبقے کو بیورو کریسی کے حوالے کر کے اپنی جان چھڑا لی۔

بیورو کریسی تو اچھے خاصے بظاہر دیکھنے اور جاننے والوں کی آنکھوں میں دھول جھونکنے کا کام جس ذوق شوق اور مہارت سے کرتی ہے اس کے لیے یہ بائیں ہاتھ کا کھیل تھا کہ نابیناوں کو گولی کرا دے ۔ لیکن ان تنگ آئے نابیناوں کو اطیمنان نہ دکھا تو پولیس بروئے کار آئی اور نابیناوں کی دھنائی شروع کر دی گئی۔ سچی بات یہ ہے کہ سانحہ ماڈل ٹاون اس ناطے سنگین اور ہولناک تھا کہ اس میں چودہ شہریوں کی جان گئی تھی۔ لیکن ان نابیناوں کے ساتھ پولیس نے جو کیا وہ اس لیے اذیت ناک اور شرمناک ہے کہ پولیس نے اپنی کارروائی سے ثابت کردیا ہے کہ ''گڈ گورنس'' کے معانی کیا ہیں۔ شرافت کی حکومت کا مطلب کیا ہے اور عوام کی خدمت کا اسلوب کیا ہے۔

اس پر کسی کو کوئی رنج ہونا چاہیے نہ تکلیف اور نہ دکھ۔۔ بلکہ یہ ایک اور نشانی ہے جو اللہ نے اس ملک کے عوام اور خصوصا ان عوام کو دکھائی ہے جو برسہا برس سے خود اندھے بہرے اور گونگے بن کر اپنا ووٹ اندھے راج کے نام کرتے آ رہے ہیں۔ بلاشبہ ایسے اندھے راج کا انتخاب کرنے میں یہ نابینا لوگ بھی شامل ہیں اور وہ نابینا بھی جن کی آنکھوں پر پٹی ان کے ذات برادری کے تعصبات اور چھوٹے چھوٹے مفادات نے باندھ رکھی ہے۔

 یا ایسی ہی کسی وجہ سے ان کی عقلوں پر پردہ پڑا ہوا ہے کہ وہ ہر بار اندھے راج کو اپنے لیے بڑے چاو سے منتخب کرتے ہیں۔ اچھے اور برے، کھوٹے اور کھرے کی تمیز کرکے ووٹ ڈالنے کے بجائے کروڑوں روپوں کی اشتہاری مہمات ، ٹی وی ٹاک شوز، لمبی لمبی گاڑیوں اور بڑے بڑے محلات کو دیکھ کر اندھے ہو جاتے ہیں ۔ ووٹ ڈالتے ہوئے نہیں دیکھ پاتے کہ ان کا پسندیدہ اور محبوب لیڈر کون ہے اور کس بنیاد ہر ہے۔ یہ لیڈر انہیں اور ان کےمسائل کو کیونکر سمجھ سکتا ہے۔ اس پرانے یا نئے محبوب کا اپنا پس منظر عام لوگوں کے مسائل سے تعلق رکھتا بھی ہے یا نہیں، ڈھول کی تھاپ پر تھرکنے اور بھنگڑے ڈال کربے حال ہو جانے والے عوام اور بھنگڑوں سے متاثر ہو کر ووٹ ڈالنے والے لوگ بالکل اسی طرح اندھے ہوکر پانچ سال کے لیے ایک گھن چکر میں پھنس جاتے ہیں جس طرح نابیناوں کی ایسوسی ایشن کے احتجاجی ارکان کو بدھ کے روز شملہ پہاڑی کے گرد چکر میں ڈال دیا گیا۔

ایسے میں ان چند نابیناوں کی پولیس کے ہاتھوں بننے والی درگت پر افسوس کیا جائے یا اس اٹھارہ کروڑ سے زائد پاکستانی عوام کی سالہا سال سے خود اندھے بن کر اپنے آپ کو اندھے راج اور اندھے راجاوں کے سپرد کر دینے کی روش پر۔ گلہ اندھے راج سے نہیں ان خودساختہ اندھے لوگوں سے ہونا چاہیے جو آنکھیں رکھنے کے باوجود مادر زاد اندھوں کی طرح نعرے بازوں اور سیاسی بازی گروں پراعتماد کرتے ہیں۔

اٹھارہ سالہ امریکی مظلوم سیاہ فام مائیک براون کے والدین نے درست کہا ہے کہ اس نظام کو بدلنے کے لیے مل کر کام کرنے کی ضرورت ہے۔ لیکن اندھا دھند فیصلے اور راج کرنے والوں کے ساتھ ملکر نہیں بلکہ اپنے جیسوں کے ساتھ، محکوموں کے ساتھ، مظلوموں کے ساتھ اور ان کے ساتھ جو انتخاب جیتنے کے بعد بھی عام آدمی کی دسترس میں رہیں نہ کہ اداکارہ میرا کی طرح انگریزی بولنے کی کوشش میں غلطاں ہو جائیں اور بے چارگان شہر کو ڈی سی اور دوسری بیورو کریسی یا پولیس کے رحم و کرم پر چھوڑ دیں۔

نجم الحسن عارف

Post a Comment

0 Comments