All About Pakistan

6/recent/ticker-posts

ڈاکٹر محمود غزنوی.....

ڈاکٹر محمود غزنوی طلبہ یونین جامعہ کراچی کے آخری صدر رہے ہیں۔ آپ کی شہرت ایک شعلہ نوا مقرر، شاعر، براڈ کاسٹر اور ابلاغیات کے استاد کی ہے۔ آپ کی زندگی جدوجہد سے بھرپور ہے جس کے بارے میں آپ کہتے ہیں کہ ’’ میں بچپن سے براہِ راست بڑھاپے میں داخل ہوا، مجھ پر جوانی نہیں آئی‘‘۔ آپ کی خطابت کی شہرت زبانی تو سن رکھی تھی لیکن 2000ء یا 2001ء کی بات ہے آپ ہفتہ طلبہ کے سلسلے میں ایک پروگرام کی میزبانی کررہے تھے۔ ویسے تو میزبان ایسے موقعوں پر زیادہ نہیں بولتا لیکن وہاں پروگرام میں خاصی تاخیر اور مہمانِ خصوصی کی دیر سے آمد کی وجہ سے ہفتہ طلبہ کی انتظامیہ کو فکر لاحق تھی کہ پوائنٹس کے جانے کا وقت ہوگیا اور مہمان کی آمد تک طلبہ اٹھ جائیں گے۔ ایسے میں آپ نے اچانک قیام پاکستان کے موضوع پر بولنا شروع کیا تو ایسا لگتا تھا کہ ایک بار پھر آپ طلبہ یونین کے زمانے کے محمود غزنوی بن گئے ہیں اور پنڈال پن ڈراپ سائیلنٹ کے ساتھ آپ کے جوہرِ خطابت کا اسیر ہوگیا ہے۔ پھر جب طلبہ آپ کی خطابت کے سحر سے باہر نکلے تو پوائنٹس جا چکے تھے اور مہمان آچکے تھے۔ یہ تھے محمود غزنوی… جب بولتے تھے تو خوب بولتے تھے۔ فرائیڈے اسپیشل نے طلبہ یونین، طلبہ یونین کی سیاست و اہمیت سمیت آپ کی جدوجہد اور مشاہدات سے بھری زندگی سے متعلق کئی سوالات کیے، جن کے جواب یقینا قارئین کے لیے دلچسپی کا باعث ہوں گے۔
……٭……
فرائیڈے اسپیشل: اگر میں آپ سے پوچھوں کہ محمود غزنوی کون ہیں تو آپ اس سوال کے جواب کے ساتھ اپنی جدوجہد اور سفر کے بارے میں کیا بتائیں گے؟
ڈاکٹر محمود غزنوی: میرا پیدائشی شہر حیدرآباد سندھ ہے۔ پیدائش کے دو تین سال بعد کراچی آگیا۔ یہیں پلا بڑھا اور تعلیم حاصل کی۔ میرا شمار معاشرے کے ان طبقات میں ہوتا ہے جو غربت کی سطح سے بھی نیچے کے لوگ تھے۔ اسکول سے کالج تک کی تعلیم کے دوران کبھی نئی کتابیں نہیں خریدیں۔ ہمیشہ سیکنڈ ہینڈ کتابیں لے کر تعلیم حاصل کی۔ بے پناہ محنت کی۔ اسکول میں تھا تو مختلف قسم کے کام کرتا تھا۔ ایک کلینک میں کمپائونڈر بھی رہا۔ پلاسٹر آف پیرس کے مجسمے بھی بنائے۔ شوکیس جس کو آپ اٹیچی کیس کہتے ہیں، اس کا مکمل کاریگر ہوں۔ فاقہ کشی کا زمانہ تھا، ہم سات بہن بھائی تھے، والد صاحب تھے نہیں… ایسی غربت تھی کہ ہمارے ہاں ہفتہ میں صرف دو دن کھانا پکتا تھا۔ ہمارے ہاں روزانہ کھانے کا تصور نہیں تھا۔ میری والدہ بڑی ہمت اور حوصلے والی خاتون تھیں۔ سلائی کرتی تھیں۔ ان کی خواہش تھی کہ میں پڑھ لکھ کر بڑا آدمی بنوں۔ وہ سب کو پڑھانا چاہتی تھیں۔ الحمدللہ میرے سارے بہن بھائی ماسٹر ہیں۔ اہلِ خاندان کہتے تھے: بھئی اتنی غربت ہے، اتنے بچے ہیں، انہیں کام پر بٹھائو، مزدوری کرکے لائیں گے تو گھر چلے گا۔ کچا مکان تھا ہمارا… یوں سمجھیے بس 10×10 کا کمرہ اور 10×10 کا صحن۔ اور یہ وہ گھر تھا جس پر مجھے کبھی شرمندگی نہیں ہوئی، فخر رہا۔ میں کراچی یونیورسٹی کا صدر تھا، میرے گھر میں بٹھانے کی جگہ نہیں ہوتی تھی۔ مہمان آتے تو ہم باہر کھڑے ہوکر بات کرتے تھے۔ بارش کے دنوں میں آدھے بہن بھائی سوتے اور آدھے جاگتے تھے، کیونکہ جگہ کم تھی۔ آدھی رات گزر جاتی تو باقی آدھوں کو سلادیا جاتا تھا۔ یہی وہ گھر ہے جہاں کراچی کے میئر اور بڑے بڑے وزرا تک آئے ہیں۔ کالج کے زمانے میں مجھے اکیڈمک کونسلر کا الیکشن لڑایا گیا۔ بہت بھاری اکثریت سے جیتا تھا۔ تقاریر کے حوالے سے پورے ملک میں میرا ایک مقام بن گیا تھا۔ ’’نخلستان‘‘ کے نام سے کالج کا سالانہ میگزین نکلتا تھا، مضمون نویسی کے مقابلے میں ایڈیٹر کے طور پر منتخب ہوا تھا۔ میں نے بی۔ ایس۔ سی پارٹ ون کرلیا تھا، پارٹ ٹو کی فیس جمع کرانے کے لیے پیسے نہیں تھے۔ دلچسپ صورت حال یہ کہ میں ضرورت مند طالب علموں کی فیس معاف کرنے والی کمیٹی میں مشیر امور طلبہ اور اکیڈمک کونسل کا ممبر تھا۔ درجنوں لوگوں کی فیس معاف کروائی لیکن اپنی فیس کے لیے منہ نہیں کھلا کہ ہم بھی ضرورت مند ہیں، اور کسی کو پتا بھی نہیں تھا۔ میں خاموشی سے کالج چھوڑ کر چلا آیا، بہت دن تک نہیں گیا۔ ہفتہ ڈیڑھ ہفتہ بعد میرے گھر پر لوگ آئے اور پوچھا: کیا ہوا، کالج کیوں نہیں آرہے ہیں؟ تو میں نے کہا: کالج چھوڑ دیا ہے اور نوکری کرلی ہے۔ میں نے زری کا کام شروع کردیا تھا۔ لوگوں نے بہت کہا کہ کالج آجائیں۔ بہت بعد میں لوگوں کو بتایاکہ چونکہ میرے پاس فیس کے پیسے نہیں تھے اس لیے کالج چھوڑا۔ ہوا یہ تھاکہ میں اس میٹنگ سے اٹھ کر آیا جس میں فیس معاف ہورہی تھی، اور ایک درخواست پرنسپل کے نام لکھ کر رکھ آیا تھا کہ میری فیس کی قسطیں کردیں، میں تین مہینے کے اندر فیس جمع کرادوں گا کیونکہ اُس زمانے میں میرے پاس کام نہیں تھا، انہوں نے وہ درخواست مسترد کردی، ان کا خیال تھا کہ شاید یہ فائدہ اٹھارہے ہیں۔ اسی زمانے میں شفیع نقی جامعہ کراچی سے پاس آئوٹ ہوچکے تھے، اب کراچی یونیورسٹی میں مقرر کوئی نہیں تھا۔ میں اور حسین حقانی ایک سطح پر پہنچ چکے تھے۔ میرے پاس جمعیت کے کچھ لوگ آئے، انہوں نے کہا کہ جامعہ کراچی میں داخلہ لے لیں۔ میں نے کہا کہ ملازمت کررہا ہوں۔ انہوں نے زبردستی میرا فارم بھروا کر جمع کرادیا اور کہا کہ آپ آجائیں۔ کالج میں بھی جمعیت کا کارکن تھا لیکن کسی کو بتایا نہیں کہ میں نے چھوڑ اکیوں ہے اور داخلہ کیوں نہیں لینا چاہتا۔داخلہ فہرست میںنام آگیا۔ میرے پاس پیسے ہوتے تو میں بی ایس سی پورا نہ کرلیتا! فیس جمع کرانے کے پیسے نہیں تھے۔ 55 روپے فیس تھی۔ والد صاحب نے میٹرک کے آخری دنوں میں مجھے گھڑی خرید کردی تھی نیلام گھر سے، اس گھڑی کی قیمت 35 روپے تھی، جب میں یونیورسٹی آیا تو وہ گھڑی 35 روپے میں فروخت کردی اور 15 یا 20 روپے میری والدہ نے دیے تھے۔ اس طرح میں نے فیس جمع کرائی اور یونیورسٹی میں داخلہ لیا۔ میرے سب بہن بھائیوں نے مجھے فالو کیا۔ میرا چھوٹا بھائی میرے ساتھ ڈبل روٹی بیچتا تھا، سخت سردی میں اخبار ڈالتا تھا۔ ہم نے فاقے کیے، سب کچھ کیا لیکن اپنی تعلیم جاری رکھی، کیونکہ ماں کا مشن تھا کہ میرے بچے صرف غربت کی وجہ سے جاہل نہ رہ جائیں۔

فرائیڈے اسپیشل:آپ نے شاعری بھی کی ، کالم نویسی بھی کرتے رہے، تدریس کے پیشے سے منسلک ہیں، کیا اس کے علاوہ بھی کچھ کرتے ہیں؟
محمودغزنوی: شاعری کا مجھے شوق تھا۔ زمانہ طالب علمی میں ماہنامہ ’’وقت‘‘ میں کالم لکھتا رہا، روزنامہ ’’اعلان‘‘ میں سب ایڈیٹر رہا، ریڈیو پاکستان میں ’’بزم طلبہ‘‘ کا اسسٹنٹ پروڈیوسر رہا۔ 1984ء میں میرا پہلا مجموعہ ’’خوابوں کی دہلیز‘‘ شائع ہوا جو بہت مشہور ہوا۔ اس کے تین ایڈیشن آئے۔ میرا دوسرا مجموعہ ’’حریم خواب‘‘ آیا۔ میں نے خود چھاپا۔ دو بڑے نامور پبلشروں نے وہ مجھ سے 50 فیصد پر معاہدہ کرکے اپنی دکانوں پر رکھ کر بیچ دیا، تقسیم نہیں کیا۔ تیسری کتاب ’’فنِ خطابت‘‘ تیار رکھی ہے۔ پبلشر دستیاب نہیں ہے۔ کتاب چھاپنا آج کے دور میں مہنگا سودا ہے، کیونکہ مارکیٹ ہی نہیں کی جاتی۔ ایک لابی ہے جس کی چیزیں چھپتی ہیں۔ لکھنے والوںنے گروہ بندی کر رکھی ہے۔ جن کی پی آر اچھی اور لابی مضبوط ہے، پبلشر سرمایہ بھی ان ہی پر لگاتے ہیں۔ پھر میں نے روزنامہ ایکسپریس میں کالم شروع کیا۔ 2003ء سے 2007ء تک میں نے کالم نگاری کی۔ ریڈیو پاکستان میں 8 سال اسسٹنٹ پروڈیوسر رہا۔ اے کٹیگری کا انائونسر رہا۔ ابھی بھی حیٔ علی الفلاح میں روشنی کا پروگرام کرتا ہوں۔ 2003ء میں کیو ٹی وی سے منسلک ہو گیا، اینکر کے طور پر وہاں لائیو پروگرام کرتا ہوں۔ زندگی کے تمام شعبوں میں اپنی صلاحیتوں کو آزمانے کی کوشش کی۔ کیونکہ مجھے احساس تھا کہ اللہ تعالیٰ نے ہر شخص کو کوئی نہ کوئی صلاحیت دے کر پیدا کیا ہے میں نے اپنے اندر کی صلاحیتیں تلاش کیں۔ میں نے اپنے اندر کا شاعر، مقرر، نعت خواں، اینکر، پروڈیوسر،کاپی رائٹر تلاش کیا جس میں الحمدللہ میں کامیاب رہا۔ تدریس میرا خاندانیپیشہہے۔ میرے تایا ہیڈ ماسٹر تھے، والد استاد تھے، بیوی اور بہن بھی تدریس سے وابستہ ہیں۔ کئی ملازمتیں ملنے کے باوجود میں نے تدریس کو بطور پیشہ اختیار نہیں کیا۔ اسٹیٹ لائف میں اسسٹنٹ منیجر پبلک ریلیشنز کے طور پر تقرر ہوا۔ ٹی وی پر اسسٹنٹ پروڈیوسر مقرر ہوا۔ مقتدرہ قومی زبان میں اسسٹنٹ پبلک ریلیشنز آفیسر مقرر ہوا۔ کے ڈی اے کے انجینئرنگ ڈپارٹمنٹ میں پبلک ریلیشنز آفیسر کے طور پر تقرر ہوا… یہ سب گریڈ17 کی ملازمتیں تھیں۔ مجھے ڈاکٹر افضل صاحب نے (وہ اس وقت وفاقی وزیر تعلیم اور یونی ورسٹی گرانٹس کمیشن کے چیئرمین تھے) یونیورسٹی گرانٹس کمیشن میں جاب آفر کی تھی، میں نے معذرت کرلی۔ افضل صاحب نے اسکالرشپ پر باہر بھیجنے کی آفر کی کہ جس ملک میں چاہو پڑھ کے آجائو۔ میں اپنی فیملی کا بڑا تھا، مشترکہ خاندانی نظام تھا، میں چھوڑ کر نہیں جاسکتا تھا، میرے حالات اس طرح کے نہیں تھے۔ میرے بہن بھائیوں نے میری تعلیم کے لیے بڑی قربانیاںدی تھیں، میں اپنے مستقبل کی خاطر انہیں مشکل حالات میں چھوڑ کر نہیں جاسکتا تھا۔ یہ خودغرضی ہوتی۔ کہا کہ اردو کالج میں جرنلزم ڈپارٹمنٹ میں کام کرو۔ میں وہاں اکیلا استاد تھا۔ میرے بعد حسن عسکری فاطمی آئے تھے۔ ڈاکٹر افضل نے پروفیسر خلیل اللہ کو ہدایت کی کہ شعبہ ابلاغ عامہ کھولنا ہے، وہ میرے گھر پر اپائنٹمنٹ لیٹر لے کر آئے۔ میں نے وہاں جاکر شعبہ صحافت قائم کیا۔ میںاُس زمانے میں اورینٹ میں کاپی رائٹر تھا۔ تین مہینہ میں نے اردو کالج کے نومولود شعبے میں تدریس کی، اس کے بعد میراجامعہ کراچی میں تقرر ہوگیا۔ وہاں سے چھوڑ کر آنا چاہتا تھا، لیکن خلیل اللہ صاحب نے چھوڑنے سے انکار کردیا کہ شعبہ صحافت تم نے شروع کیا ہے تم ہی اسے چلائو گے۔ پرنسپل صاحب مجھے اس لیے بھی رکھنا چاہتے تھے کہ میرے وفاقی وزیرِ تعلیم سے گہرے مراسم تھے جو اردو کالج کے بورڈ آف گورنر کے چیئرمین بھی تھے۔ انہی کے کہنے پر میں نے تدریس شروع کی تھی۔ پھر مشروط اجازت انہوں نے دی کہ آپ ہمارے ہاں کوآپریٹو ٹیچنگ کرتے رہیں۔ جامعہ کراچی میں بطور لیکچرار آیا تھا، اب الحمدللہ پروفیسر ہوں۔

فرائیڈے اسپیشل: آپ کا زمانہ طالب علمی طلبہ یونینوں کا آخری زمانہ تھا۔آپ انجمن طلبہ جامعہ کراچی کے صدر رہے۔ اب عرصہ ہوا طلبہ یونینوں پر پابندی ہے۔آپ ہمیں یہ بتائیے کہ طلبہ یونین کی موجودگی کا کیا فائدہ تھا اور ان کے نہ ہونے کا کیا نقصان ہے۔؟

ڈاکٹر محمود غزنوی: فائدہ تو نہیں ہوا، نقصان زیادہ ہوا ہے۔ 1983-84ء میں یہ پابندی لگی ہے۔ اُس وقت سے اب 31 برس گزر چکے ہیں، ایک نسل پیدا ہو کے گریجویشن کرکے چلی گئی ہے۔ انہیں معلوم ہی نہیں کہ طلبہ یونین کیا ہوتی ہے۔ طلبہ یونین کا ایک جمہوری سیٹ اپ تھا۔ ہم جمہوریت پر بہت بات کرتے ہیں، ہم نے جمہوریت کو مقدس گائے بنایا ہوا ہے، لیکن ہمارا رویہ ہمیشہ غیر جمہوری ہوتا ہے۔ طلبہ یونین کا سیٹ اپ ایک بلدیاتی نظام سے لے کر وفاقی نظام تک کی ٹریننگ تھا۔ پہلے مرکزی الیکشن ہوتے تھے۔ صدر، نائب صدر، جنرل سیکرٹری، جوائنٹ سیکرٹری۔ پوری جامعہ کراچی کی ایک مرکزی یونین تھی۔ اس کے بعد فیکلٹی کے نمائندوں کے الیکشن ہوتے تھے۔ یہ صوبائی حکومت تھی۔ ہر فیکلٹی کا ایک نمائندہ یونین میں جاتا تھا جسے آپ اسمبلی کہہ لیں۔ اس کے بعد اسپیکر اور ڈپٹی اسپیکر کا الیکشن ہوتا تھا۔ سینیٹ بنتی تھی، باقاعدہ سینیٹ کا الیکشن ہوتا تھا… ایوانِ زیریں اور ایوانِ بالا جیسے قومی اسمبلی اور سینیٹ۔ سینیٹ کا اسپیکر ہوتا تھا۔ اس کے بعد ڈپارٹمنٹل الیکشن ہوتے تھے۔ یہ سارا بلدیاتی نظام تھا۔ ہر ڈپارٹمنٹ کی یونین ہوتی تھی۔ صدر، نائب صدر، جنرل سیکرٹری، جوائنٹ سیکرٹری۔ جیسے مرکزی یونین ہوتی تھی ویسے ہی ڈپارٹمنٹ کی ہوتی تھی۔ ڈپارٹمنٹل معاملات نبٹتے تھے۔ پھر فیکلٹی کی سطح پر جاتے، وہاں سے مرکز کی سطح پر آتے۔ سینیٹ کا اسی طرح اجلاس ہوتا تھا۔ بجٹ پیش ہوتا، وہ سینیٹ میں آتا۔ جب تک سینیٹ منظور نہ کرے بجٹ منظور نہیں ہوتا تھا، اور یونین فنڈز استعمال نہیں کرسکتی تھی۔ بحث مباحثہ اسی طرح ہوتا جس طرح سینیٹ میں ہوتا ہے۔ یونین بجٹ بنا کر پیش کرتی تھی، اگر بجٹ منظور نہ ہوگا تو یونین کام نہیں کرے گی، منظور ہوگیا تو کام کرے گی۔ پورا ایک جمہوری نظام تھا اور تربیت تھی۔ اس کے علاوہ یونین کی بہت صحت مند سرگرمیاں ہوتی تھی۔ یونین کے کام اب تک لوگوں کو پتا ہی نہیں ہیں۔ مثلاً یونین کے بڑے پروجیکٹ ہوتے تھے، ان میں ایک بڑا پروجیکٹ سالانہ میگزین نکالنا ہوتا تھا۔ میں نے دو میگزین نکالے ہیں۔ ایک میگزین تقریباً ڈیڑھ لاکھ روپے کا نکلا تھا۔ اُس زمانے میں ڈیڑھ لاکھ روپے کی اہمیت ہوتی تھی۔ وہ میگزین تاریخی میگزین تھے۔ میگزین 1980ء سے 1982ء دو سال نکالے تھے۔ ہفتہ طلبہ ہوتا تھا، یہ کوئی معمولی ویک نہیں ہوتا تھا۔ کانوکیشن گرائونڈ پورا بھرا ہوتا تھا۔ جامعہ کراچی سے 56 کالج ملحق تھے۔ ان کالجوں سے طلبہ اسی ڈبیٹ کو دیکھنے اور سننے آتے تھے۔ پورا شہر امڈ پڑتا تھا۔ ہفتہ طلبہ میں تقاریر ہوتی تھیں، مشاعرہ ہوتا تھا، روبرو ہوتا تھا۔ ٹاپ لیول کے جتنے لوگ ہوتے تھے وہ اس میں آتے تھے۔ ادبی عدالت کا تو تصور ہی ختم ہوگیا ہے۔ اب تو سمجھتے بھی نہیں کہ ادبی عدالت کیا ہوتی ہے۔ بڑی بڑی ادبی عدالتیں ہوئیں۔ سردار شیرباز مزاری پر، مصطفی کھر پر، ابن صفی، حبیب جالب وغیرہ پر… بڑے بڑے لوگوں پر عدالت لگی ہے۔ یہاں دنیا اسے دیکھنے آتی تھی۔ تربیت تھی وہ۔ اس کے بعد مضمون نویسی کے مقابلے ہوتے تھے۔ ٹرانسپورٹ کمیٹی تھی۔ طالب علم ٹرانسپورٹ کا نظام چلاتے تھے۔ کینٹین کمیٹی تھی۔ کینٹین کا سارا نظام وہ کمیٹی چلاتی تھی۔ یہ جب نکل کر باہر جاتے تھے فیلڈ میں تو انتظامی امور کا تجربہ لے کر جاتے تھے۔ اب آپ دیکھیں اس وقت جو بڑے کامیاب لوگ ہیں مثلاً جاوید ہاشمی پنجاب یونیورسٹی کے صدر تھے، احسن اقبال انجینئرنگ یونیورسٹی لاہور کے صدر تھے، ظہور الحسن بھوپالی سندھ اسمبلی کے رکن تھے، دوست محمد فیضی سندھ اسمبلی میں قائد حزب اختلاف تھے۔ نامور مقرر تھے۔ ضیاء الاسلام زبیری جو اس وقت پبلک ریلیشنز کے بہت بڑے آدمی ہیں، شفیع نقی جامعی جو اس وقت براڈ کاسٹر ہیں، حسین حقانی جو امریکہ میں سفیر رہے ہیں یہ سب کراچی یونیورسٹی کے بڑے بڑے نام تھے۔ یہ سارے کے سارے طلبہ یونین کی پیداوار ہیں۔ طلبہ یونین میں تربیت کی جاتی تھی اور صلاحیتوں کو نکھارا جاتا تھا۔ کراچی یونیورسٹی سے پروین شاکر، ایوب خاور، تاجدار عادل جیسے بڑے بڑے شاعر نکلے، ادیب نکلے، سیاست دان نکلے۔ اب کیا نکلتا ہے! ان 25 سالوں میں اگر چند بڑے نام نکلے ہیں تو وہ اپنی ذاتی کوششوں سے نکلے ہیں۔
فرائیڈے اسپیشل:طلبہ یونین کی سیاست کے شہر کے مزاج اور سماج پر کیا اثرات پڑتے تھے؟
ڈاکٹر محمود غزنوی: جامعہ کراچیکی یونین کا صدر شہر کے معززین میں شمار ہوتا تھا۔ شہر میں بڑے ممالک کے جتنے سفارت خانے تھے وہاں تقریبات میں معززینِ شہر کو بلایا جاتا تھا اُن میں جامعہ کراچی کا صدر بھی شامل ہوتاتھا۔ بڑی چیزوں کو سمجھنے کا موقع ملتا ہے۔ یہتربیت کا بہت اچھا ذریعہ تھا۔ پھر جب طلبہ سیاست میں تشدد کا عنصر بڑھا تو پابندی لگ گئی۔ طلبہ یونین پر پابندی کا اصل ذمہ دار سیاست دانوں کا غیر ذمہ دارانہ رویہ تھا۔ اس کا نتیجہ کیا ہوا، کیا تشدد ختم ہوگیا؟ اب اس سے بڑے پیمانے پر ہوتا ہے۔ کیا تنظیمیں ختم ہوگئیں؟ تنظیمیں آج بھی موجود ہیں۔ البتہ وہ صحت مند سرگرمیاں ختم ہوگئیں۔ کم از کم یونین کا ایک فائدہ یہ تھا کہ ہر پارٹی کی کوشش ہوتی تھی کہ جو آدمی بھی یونین میں آئے وہ یونیورسٹی کاباصلاحیت فرد ہو، اچھا مقرر ہو، اچھا لکھاری ہو، اچھا شاعر ہو، اچھا طالب علم ہو، مؤدب ہو، یونیورسٹی میں اس کی اپنی عزت اور وقار ہونا چاہیے۔ اس زمانے میں جھگڑے نہیں ہوتے تھے۔ عالم یہ ہوتا تھا کہ اسٹیج پر ایک دوسرے کے خلاف تقریریں کررہے ہوتے تھے۔ الیکشن کے زمانے میں یہ لگتا تھا کہ اسٹیج سے نیچے اتریں گے تو جھگڑا ہوجائے گا۔ لیکن جب نیچے اترتے تھے تو اسی کیفے ٹیریا میں تمام لیڈر ساتھ بیٹھ کر کھانا کھاتے تھے۔ کارکنان بھی دیکھتے تو خوش ہوتے کہ اختلافات اسٹیج تک ہوتے ہیں یا صرف الیکشن تک ہیں۔ جب سے ہم نے سیاسی اختلاف کو ذاتی اختلاف بنایا، حالات بگڑتے چلے گئے۔جامعہ کراچی کا ایک تقدس تھا۔ کوئی باوردی پولیس والا داخل نہیں ہوسکتا تھا۔ اگر ہوجائے تو اسے جامعہ کا تقدس پامال ہونا سمجھا جاتا تھا۔
فرائیڈے اسپیشل: اس دوران کئی حکومتیں آئیں، انہوں نے اعلان کیا کہ طلبہ یونین بحال کریں گے۔ لیکن کوئی بھی حکومت طلبہ یونین کو بحال نہیں کرسکی۔ اس کا کیا سبب ہے؟

ڈاکٹر محمود غزنوی: طلبہ یونین کو بحال کرنا اب ممکن نہیں رہا، کیوں کہ ہمارا سیاسی عنصر تعلیمی اداروں میں بہت زیادہ ملوث ہوگیا ہے۔ جس زمانے میں طلبہ یونین پر نئی نئی پابندی لگی تھی اس وقت ڈاکٹر افضل صاحب تعلیم کے وزیر تھے۔ میںنے ایک سرکاری ملاقات میں ان سے کہا کہ اگر انتظامی طور پر آپ سمجھتے ہیں کہ یونین پر پابندی لگانی ہے تو لگائیں، لیکن اسٹوڈنٹس کونسل کا کوئی منصوبہ ہونا چاہیے، طلبہ سرگرمیوں کا کوئی تصور ہونا چاہیے، انہیں اسٹیج اور پلیٹ فارم دیجیے، کوئی طریقہ ایسا رکھیں کہ ان کا ٹیلنٹ تو سامنے آتا رہے۔ دیکھیں، پابندی کا نتیجہ یہ نکلا کہ تشدد کا عنصر زیادہ آیا۔ بہتے پانی کا راستہ اگر آپ روکیں گے اور جب وہ اوور فلو کرے گا تو گائوں دیہات میں سیلاب لے کر آئے گا، تباہی مچائے گا۔ لیکن اگر دونوں طرف رکاوٹ لگا کر راستہ دے دیں تو وہ اسی راستے پر چلتا رہے گا۔ طالب علموں کا ٹیلنٹ بالکل اس بہتے ہوئے پانی کی طرح ہے۔ راستہ دے دیں تو یہ پانی گزر جائے گا اور سیراب کرتا ہوا گزرے گا، لیکن اگر پابندیاں لگائیں گے تو یہ بند توڑے گا اور سیلاب لائے گا۔
فرائیڈے اسپیشل: آپ اپنے زمانے کے مشہور مقررین میں سے ایک تھے۔ بتائیے کے ایک اچھے خطیب کے اندر کیا خصوصیات ہونی چاہیں؟

ڈاکٹر محمود غزنوی: مقرر میں دو چیزیں ہوتی ہیں، ایک تو پیدائشی مقرر ہوتا ہے۔ خدا نے اس کو خطابت ودیعت کی ہوتی ہے۔ ویسے تو انسان کی فطرت میں بولنا شامل ہے لیکن بڑے مجمع میں جاکر بولنا، دوسروں کو متفق کرنا، اپنا نقطہ نظر بیان کرنا، لوگوںکو قائل کرنا اور اپنے خیالات سے گھائل کرنا… یہ اصل میں ایک فن ہے۔ اس کے لیے ریاضت کرنی پڑتی ہے۔ میں عنایت اللہ اسمٰعیل گجراتی کو لاہور سننے گیا، میرے پاس پیسے نہیں تھے، تین دن بھوکا رہا۔ نواب بہادر یار جنگ کی دعا اکیڈمی میں صرف دس منٹ کی ٹیپ سننے کے لیے ساری رات سردی میں ٹھٹھرتا رہا۔ محنت، مشقت اور لگن اولین شرط ہے۔
فرائیڈے اسپیشل: آپ نے کہا طلبہ یونین کے زمانے میں ہم نصابی سرگرمیاں ہوتی تھیں تو مقرر، لکھاری، شاعر پیدا ہوا کرتے تھے۔ تقریریں آج بھی ہوتی ہیں، یہ الگ بات کہ معیار نہیں رہا۔ کیا ہم وہ سنہرا دور واپس لا سکتے ہیں؟
ڈاکٹر محمود غزنوی: ہاں بالکل، وہ دور آسکتا ہے۔ 

اگر کوئی عمارت گر جائے اور ہم یہ طے کرلیں کہ عمارت دوبارہ بنانی ہے تو اس سے عالیشان عمارت بن سکتی ہے۔ پاکستان میں بہت ٹیلنٹ ہے۔ آج کا طالب علم ہمارے زمانے سے زیادہ ذہین ہے۔ بس درست طریقے سے تربیتاور رہنمائی کی ضرورت ہے جو ہمارے تعلیمی اداروں میں کہیں نہیں ہورہی۔ آپ بتائیں ملک میں کہیں کوئی ایسی ڈبیٹ ہوتی ہے جس میں پورے پاکستان کو مدعو کیا جائے! حال یہ ہے کہ جامعہ کراچی میں مقررین کا انتخاب کرنے کے لیے ایسے افراد مقرر ہیں جن کا تقریر کی دنیا میں کوئی بڑا تجربہ نہیں۔ خدا کے لیے ڈبیٹنگ سوسائٹی بنائیں، یہ آپ کا ثقافتی ورثہ ہے، مسلمانوں کی شناخت ہے۔ دنیا میں اسلام سے قبل بھی مقرر کو معاشرے میں اہم مقام حاصل تھا۔ جنگوں میں مقرر کی اہمیت تھی۔ جو قاصد بھیجے جاتے وہ خطیب ہوتے تھے۔ آج بھی وہی لوگ کامیاب ہیں جو اسمبلیوں میں بولتے ہوئے آئے ہیں۔ جو بولتے ہوئے نہیں آئے وہ اسمبلیوں میں سوتے ہیں اور اپنی رسوائی کراتے ہیں۔ صرف وہی لوگ کامیاب ہیں جن کو بولنا آتا ہے۔
فرائیڈے اسپیشل: آپ کچھ عرصہ ایک ایڈورٹائزنگ ایجنسی سے بھی وابستہ رہے ہیں۔ اشتہار سازی کے بارے میں کہا یہ جاتا ہے کہ یہ صارفین کو دھوکا دینے کا ایک فن ہے۔ آپ اس تجزیے سے کتنا اتفاق کرتے ہیں؟
ڈاکٹر محمود غزنوی: نہیں یہ دھوکا دینے کا فن نہیں ہے۔ ایڈورٹائزنگ واحد کھیل ہے جس میں دونوں پارٹیاں جیتتی ہیں۔ مارکیٹ بہت حساس چیز ہوتی ہے۔ سرمایہ بہت حساس ہوتا ہے۔ اگر آپ کو یقین ہوجائے کہ میں نے آپ کو دھوکا دیا تو دوسری مرتبہ آپ دھوکا نہیں کھاتے۔ البتہ اس فیلڈ میں تھوڑا بہت مبالغہ کیا جاسکتا ہے صرف زیب داستاں کے لیے۔ مارکیٹ میں قیام کے لیے آپ کو گڈ ول بنانی پڑتی ہے اور گڈول ہمیشہ اعتماد سے بنتی ہے۔ قابل اعتماد اور ذمہ دار ہونا بہت ضروری ہے۔ فرائیڈے اسپیشل:۔ آپ کے خیال میں آج کا صارف چیزوں کے معیار کی بنیاد پر خریداری کرتا ہے یا اشتہارات کے دبائو میں آکر؟
ڈاکٹر محمود غزنوی: ایڈورٹائزنگ کی میرٹ اور ڈی میرٹ ہوتی ہیں۔ اشتہاریات ارشمیدس کا لیور ہے جس نے ساری کاروباری دنیا کو اٹھا رکھا ہے۔ اس کے بغیر مارکیٹ اور صارف کا تعلق قائم نہیں ہوسکتا۔ اشتہاریات مختلف علوم کا مجموعہ ہے۔ شاعری، آرٹ، مصوری، علم بشریات، علم نفسیات، علم سماجیات، ادب، لوگوں کی نفسیات کو سمجھنا، بشری ضرورتوں کا ادراک کرنا۔ سماجیات کے مسائل کو سمجھ کر ہم مارکیٹ میں آتے ہیں، بات کرتے ہیں۔ بہت سے علوم کا مجموعہ ہے اور ان کے علوم کے ذریعہ ہم جو کام کرتے ہیں وہ کاپی رائٹنگ ہے اصل میں اچھا کاپی رائٹر۔ ضرورتوں کا ادراک کراتا ہے،ان کا حل تجویز کرتا ہے۔صارف اور پروڈیوسر کے درمیان پل بنتا ہے۔اشتہاریات ایک سماجی ادارہ بن کر کام کرتی ہے۔ مارکیٹ میں آپ کو جتنی رونق نظر آرہی ہے وہ اشتہارات کی وجہ سے ہے۔ جتنا کاروبار بڑھ رہا ہے اشتہارات کی وجہ سے بڑھ رہا ہے۔
فرائیڈے اسپیشل:۔ہر معاشرے کی کچھ بنیادی اخلاقیات ہوتی ہیں، لیکن ہمارے یہاں اشتہار میں جدت کے نام پر جو تماشا برپا ہے کیاوہ ہمارے سماج کا عکاس ہے؟
ڈاکٹر محمود غزنوی:۔ جدت طرازی میں ہم وہاں وہاں چلے گئے ہیں جہاں سے اخلاقیات مجروح ہوتی ہیں۔ جدت کا مطلب اپنی روایات سے ہٹ جانا نہیں بلکہ ایک مختلف راستہ اختیار کرنا ہے۔ جہاں تک فحاشی کا تعلق ہے ہوا یہ کہ ہمارے ہاں فرائیڈ کی تھیوری کا اطلاق بہت زیادہ کیا گیا ہے۔ وہ کہتا ہے کہ صنفِ مخالف میں بہت زیادہ کشش ہوتی ہے اور اشتہار کا مقصد صارف کی توجہ حاصل کرنا ہے۔ چنانچہ اشتہاروں میں بھی کثرت سے خواتین کا استعمال شروع کیا گیا یہ دیکھے بغیر کہ اس سے خواتین کا تعلق بنتا ہے یا نہیں۔ مثلاً شیونگ ریزر سے خاتون کا کوئی تعلق نہیں۔ موٹر سائیکل سے خاتون کا کوئی تعلق نہیں۔ لیکن جب تک موٹر سائیکل میں پیچھے خاتون نہ بیٹھی ہو اشتہار مکمل نہیں ہوتا۔ اس کا تعلق ایڈورٹائزنگ سے نہیں ہے۔ میں جب اورینٹ میں ہوتا تھا ہم نے ایک تجربہ کیا تھا۔ ہاشمی صاحب مرحوم بھی کہتے تھے کہ عورتوں کا استعمال کم ہونا چاہیے۔ چنانچہ ہم نے جنگل بنایا تھا’’ بھول نہ جانا پھر پپا، نورس لے کر گھر آنا‘‘ اس میں ایک بچی کو ماڈل بنایا۔ وہ اورینٹ کا پہلا جنگل تھا جو مارکیٹ میںسپرہٹ ہوا۔ ایوارڈ ملا تھا اسے۔ حالانکہ اس پر ہمیں بہت مخالفت جھیلنی پڑی تھی کہ نہیں صاحب یہ فلاپ ہوجائے گا، اس میں کشش نہیں ہے۔ وہ چلا تو خوب بزنس کیا۔ اس کے بعد سب نے بچوں کو استعمال کیا۔ بیوی دیکھ رہی ہو یا شوہر دیکھ رہا ہو، دونوں ایک دوسرے کو بلا کر دکھا رہے ہوتے ہیں۔ توجہ ملتی ہے۔ اس کے بعد سے آج تک بچے اشتہار کا حصہ ہیں۔ انڈیا سے ایک اشتہار آیا تھا، انہوں نے انڈین کلچر دکھایا کہ ایک صاحب مٹکا بجا رہے ہیں، ایک بچہ دانت بجاتا ہوا آیا، ان صاحب نے اور زور سے مٹکا بجایا، بچے نے ان سے زیادہ زور سے دانت بجائے۔ مٹکا ٹوٹ جاتا ہے۔ بچہ کہتا ہے مٹکا ٹوٹ جاتا ہے دانت نہیں ٹوٹ سکتا، میں پیپسوڈین استعمال کرتا ہوں۔ اس میں بچہ استعمال ہوا ناں… نہ کوئی عورت نہ کچھ اور۔
فرائیڈے اسپیشل:آپ تین دہائیوں سے پڑھا رہے ہیں۔ آپ کی نظر میں ایک اچھا استاد اور ایک اچھا طالب علم کیسا ہونا چاہیے؟
ڈاکٹر محمود غزنوی: اچھا استاد ہونے کے لیے دو چیزوں کا ہونا بہت ضروری ہے۔ ایک تو یہ کہ استاد کو اپنے مضمون پر دسترس ہونی چاہیے۔ دوسرے یہ کہ اسے ایک بہت اچھا دوست ہونا چاہیے۔ طالب علم کا ڈر نکلے گا تو وہ آپ سے سیکھے گا۔ جب تک آپ کلاس میں غیر رسمی ماحول پیدا نہیں کریں گے ایسا ممکن نہیں ہوگا۔ طالب علم میں جھجک ہوتی ہے۔ وہ سیکھنا چاہتا ہے لیکن ڈر کی وجہ سے نہیں بولتا۔ طالب علم کو آزادی دیجیے کہ اخلاق کے دائر ے میں رہتے ہوئے وہ جو پوچھنا چاہے آپ سے پوچھ سکے۔ ہمارے ہاں استاد سوال سے ڈرتے ہیں۔ سوال کرنے کی اجازت نہیں دیتے۔ بعض استاد کہہ دیتے ہیں کہ جو سوال کرنا ہو میرے کمرے میں آکر کرنا یا کلاس کے باہر کرنا۔ وہ سوچتے ہیں معلوم نہیں طالب علم کیا پوچھ بیٹھے، میں جواب نہیں دے سکا تو بے عزتی ہوجائے گی۔ طالب علموں کو سوال کرنے کی اجازت دیں تو اس سے ایک فائدہ یہ ہوتا ہے کہ استاد بھرپور تیاری کرکے جاتا ہے۔ پھر یہ کہ اپنا مضمون مستقل پڑھتے رہنا چاہیے۔ جس عمر میں ہم طالب علم کو پڑھا رہے ہیں اس عمر میں پڑھایا نہیں جاتا، پڑھنے کی طرف راغب کیا جاتا ہے۔ 45-40 منٹ میںکوئی استاد کچھ نہیں پڑھا سکتا۔ مضمون سے دل چسپی پیدا کردیں کتابوں سے دل چسپی پیدا کر دیں وہ خود پڑھنے لگے گا ۔ اصل میں طالب علم اس لیے اچھے نہیں آتے کہ اب نہ تو ماںباپ اچھے رہے ہیں،معذرت کے ساتھ کہ میں بھی ماں باپ میں شامل ہوں، نہ استاد اچھے رہے ہیں۔ جب ہم اسکول جاتے تھے تو یہ ہوتا تھا کہ صبح اسمبلی میں ہمارے استاد ہم پر کڑی نظر رکھتے تھے، سر کے تیل سے لے کر جوتوں کی پالش تک پوری شخصیت کاجائزہ لیتے تھے، کوئی کمی ہو تو ہمیں کچھ نہیں کہتے تھے، بس یہ کہتے تھے کل اپنے ابا کو بلا کر لانا۔ ہمارے استاد صرف ہمارے استاد نہیں تھے، ہمارے والدین کے بھی استاد تھے۔ آپ کو حیرت ہوگی ہمارے اسکول کے اسٹاف روم میں 10 استاد بیٹھتے تھے، ہم نے ان استادز کو کبھی اسکول آتے ہوئے نہیں دیکھا اور کبھی اسکول سے جاتے ہوئے نہیں دیکھا۔ ہمارا تصور یہ تھا کہ یہ استادز یہیں رہتے ہیں۔ صبح اٹھ کر آجاتے ہیں، ہم پڑھ کر چلے جاتے ہیں تو یہ یہیں سوجاتے ہیں۔ کلچر یہ تھا کہ 7:30 پر اسکول لگتا تھا۔ 7:00 بجے تمام استاد پہنچ جاتے تھے طالب علموں سے پہلے۔ جب سارے بچے اسکول سے نکل جاتے تو چوکیدار سے رائونڈ لگوایا جاتا تھا یہ دیکھنے کے لیے کہ اسکول کی کلاس میں کوئی بچہ رہ تو نہیں گیا۔ جب پتا چلتا کہ آخری بچہ بھی چلا گیا ہے تو استاد ٹولیوں کی شکل میں نکلتے۔ ہم نے اپنے استادز کو کھاتے پیتے نہیں دیکھا، سگریٹ تو دور کی بات ہے۔ ہم یہ سمجھتے تھے کہ یہ انسان نہیں ہیں۔ یہ کھاتے پیتے نہیں ہیں۔ آج طالب علم سے سگریٹ منگوا کر پیتے ہیں۔ شخصیت سازی میں استاد کا جو رول ہوتا ہے وہ اسکول کے زمانے سے ختم ہوگیا ہے۔ پھر ماں باپ کا رویہ بہت خراب ہوگیا ہے۔ اس میں مَیں بھی شامل ہوں۔ ہمارے زمانے میں استاد اگر کبھی سزا دے دیتا تھا اور ہم آکر والدین سے کہتے تو وہ کہتے تم نے کچھ کیا ہوگا، ایسے تو نہیں مارسکتے۔ آج اگر طالب علم کو استاد مارے تو کہتے ہیں: اس کی یہ مجال! ہم تنخواہ دیتے ہیں، اسے ہم فیس دیتے ہیں۔ مارا کیسے؟بچے کے سامنے استاد سے بدتمیزی کرکے استاد کا امیج آپ خراب کرتے ہیں۔ جب استاد کی شخصیتماں باپ خراب کردیتے ہیں تو پھر طالب علم بھی عزت نہیں کرتا، وہ سمجھتا ہے کہ یہ ہمارے تنخواہ دار ملازم ہیں۔ وہ کلچر لے کر جب طالب علم یہاں آتا ہے تو پکا ہوچکا ہوتا ہے۔
فرائیڈے اسپیشل:آپ کے اساتذہ کس طرح کے تھے؟
ڈاکٹر محمود غزنوی: بہت اچھے۔ میں طالب علموں سے کہتا ہوں کہ استاد کی شخصیت کا اثر ہوتا ہے۔ ہم انسان ضرور ہوتے ہیں لیکن ہماری ذمے داری دوسروں سے بہت زیادہ ہوتی ہے۔ طالب علم ہم سے صرف پڑھ نہیں رہا ہوتا، ہماری شخصیت کا مشاہدہ بھی کررہا ہوتا ہے۔ ہمارا پہننا اوڑھنا بھی دیکھتا ہے۔ ہماری ذہنی سطح اور علمیت بھی چیک کرتا ہے۔ اور ہر اس استاد کی بہت عزت ہوتی ہے جسے اپنے مضمون پر گرفت ہو۔ طالب علم اگر بدمعاش یا غیر سنجیدہ ہے وہ بھی اس استاد کی بہت عزت کرتا ہے جو اس کو پڑھاتا ہے، اور وہ یہ سمجھتا ہے کہ ان کے پاس علم ہے۔ علم ہمیشہ اپنی قدر کراتا ہے۔ میرے کالج کے ہیڈ ماسٹر علی گڑھ کے تھے۔ بڑی سفید داڑھی، کالے رنگ کی شیروانی، چوڑی دار پاجامہ، ٹوپی… بالکل ایسے لگتے تھے جیسے فرشتہ۔ روزانہ ان کی 5 منٹ کی تقریر ہوتی تھی۔ ایک بچے سے نعت پڑھواتے تھے، ایک بچے سے 5 منٹ کی تقریر کرواتے تھے۔ اس تقریر میں یہ ہوتا کہ نماز کیسے پڑھنا ہے، روز کی عبادت کیسے کی جائے، نماز کا مکمل طریقہ کہ ہاتھ کیسے باندھنا ہے، نیت کیسے کرنی ہے، وغیرہ وغیرہ۔ میں آج بھی جب نماز پڑھنے کھڑا ہوتا ہوں تو ان کی شکل میرے سامنے آجاتی ہے۔ اسی طرح ہمارے ایک استاد تھے، صاف ستھرا لباس پہنتے، اُس زمانے میں فائونٹین پین سے لکھنے کا رواج تھا لیکن ان کے ہاتھوں پر کبھی انک لگی نہیں دیکھی، وہ کلاس میں آکر کرسی پر ہاتھ رکھتے۔ ہم ان کے ناخن دیکھتے، ان کے کپڑے دیکھتے جن کی استری خراب نہیں ہوتی تھی۔ وہ گہرے گہرے ناخن کاٹتے تھے۔ میں آج تک گہرے گہرے ناخن کاٹتا ہوں۔ یہ ساری چیزیں طالب علم پر اثرانداز ہوتی ہیں۔ گفتگو سلیقے سے کرتے تھے۔ ہمارے اسکول میں مضمون نویسی کا مقابلہ ہوتا تھا جس میں انعام کورس کی کتابیں ہوتی تھیں۔ میںہمیشہ اول آتا تھا۔ مجھے معلوم ہے اس زمانے میں مجھے لکھنا نہیں آتا تھا، مجھے سال بھر کا کورس مل جاتا تھا۔ وہ کورس اسکول نہیں دیتا تھا بلکہ کلاس استاد اپنی جیب سے دیتا تھا۔ تین چار بچوں کا کورس ہر سال ایک استاد اپنے پاس سے دیتا تھا۔ مقابلہ تو بہانہ ہوتا تھا کیونکہ جیتتے وہی تھے جو غریب ہوتے تھے۔ یہ استاد کا رول ہے۔
فرائیڈے اسپیشل:ڈاکٹر معین الدین عقیل نے فرائیڈے اسپیشل کو انٹرویو دیتے ہوئے کہا ہے کہ معاشرے کی خرابی کا ذمہ دار استاد ہے۔ کیا آپ اس تجزیے سے اتفاق کرتے ہیں؟
ڈاکٹر محمود غزنوی: بالکل صحیح ہے۔ اس لیے کہ ماں باپ اپنی اولاد کو استاد کے حوالے اس اعتماد سے کرتے ہیں کہ وہ اسے انسان کا بچہ بناکر معاشرے میں بھیجیں گے۔ ہم نہیں بنا رہے۔ ہم کیا کرتے ہیں! میں ابلاغ عامہ پڑھائوں گا، ریاضی، طبیعات، کیمیا اردو، سب پڑھا کر نکال دوں گا۔ اسلام کا کلچرکیا ہے، رسولوں کا وظیفہ کیا ہے ’’کہ پڑھاتے بھی ہیں، وہ آیتیں بھی سناتے ہیں اور تزکیہ بھی کرتے ہیں‘‘۔ تزکیہ کیا ہے… تربیت ہے۔ ہمارا کام صرف پڑھانا نہیں ہے۔ ہمارا کام انسان بنانا ہے، شخصیت سازی کرنا ہے۔ ہم ان کی تربیت کرنے کے ذمہ دار ہیں۔ مثلاً کوئی طالب علم الٹے ہاتھ سے پانی پی رہا ہو تو میں ٹوک دیتا ہوں۔ اذان ہوتی ہے تو میں طالبات سے کہتا ہوں کہ سر پر دوپٹہ اوڑھو۔ یہ چھوٹی چھوٹی باتیں ہوتی ہیں، یہ ہم کرتے تھے۔ میں کلاس میں کبھی طلبہ و طالبات کو ساتھ بیٹھنے نہیں دیتا تھا۔ جامعہ ملیہ کالج کے بانی محمود حسین صاحب نے عجیب طریقہ اختیار کیا۔ ایک طالب علم جہانگیر خان کہیں سے آیا تھا، اس کے گریبان کے بٹن کھلے تھے اور سر میں کنگھی بھی نہیں ہوئی تھی۔ محمود حسین صاحب آئے اور انہوں نے اس کے کندھے پر ایک ہاتھ رکھا اور باتیں کرتے ہوئے دوسرے ہاتھ سے گریبان کے بٹن بند کردیے۔ اس کے ہاتھ پکڑے اور اس کی آستینوںکے کفوں کے بٹن لگا دیے۔ پھر یہ کہتے ہوئے سر پر ہاتھ پھیرتے رہے: ماشاء اللہ کتنے اچھے بال ہیں۔ میں جب تک اس کالج میں رہا اُس لڑکے نے کبھی گریبان کے بٹن نہیں کھولے۔ کبھی ایسا نہیں ہوا کہ اس کے بال بکھرے ہوئے ہوں۔ وہ سمجھ گیا تھا کہ میرا یہ حلیہ انہیں پسند نہیں آیا۔ انہوں نے ایک جملہ نہیںکہا کہ تم نے بٹن کیوںکھولے ہوئے ہیں، کنگھی کیوں نہیں کی۔ میں کہاں کرتا ہوں یہ کام؟ میں شخصیت کہاں بناتا ہوں؟ میں ذاتی طور پر یہ کرتا ہوں کہ 50 منٹ کی کلاس میں گفتگو کرتے کرتے درمیان میں اخلاقیات کے حوالے سے بات کر جاتا ہوں، اس لیے کہ ہمارا بنیادی کام شخصیت سازی ہے، انسان بنانا ہے، مسلمان بنانا ہے۔ ہم اپنا نظریہ تو دیں۔
فرائیڈے اسپیشل: نوجوان نسل کے بارے میں ایک عام خیال یہ ہے کہ یہ پڑھتے نہیں ہیں؟
ڈاکٹر محمود غزنوی: بات تو سچ ہے مگر بات ہے رسوائی کی۔ اصل میں ہمارے طالب علم ہی نہیں بلکہ ہمارے اساتذہ بھی نہیں پڑھتے۔
فرائیڈے اسپیشل: سبب کیا ہے؟
ڈاکٹر محمود غزنوی: مطالعے کا شوق نہیں اور طالب علم کو تو بالکل بھی نہیں ہے۔ استاد کی تو مجبوری ہے، اسے تو پڑھنا ہے… نہیں پڑھے گا تو پڑھائے گا کیسے! اس لیے وہ کچھ نہ کچھ پڑھ لیتا ہے۔ طالب علم نہیں پڑھتا۔ آپ ایڑی چوٹی کا زور لگا لیں، اسے پڑھنے کی طرف راغب کریں، وہ نہیں پڑھتا۔ پڑھنے کا کلچر ختم ہوگیا ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ سوسائٹی نے اپنا رویہ بدل لیا ہے۔ ہمارے زمانے میں گلی گلی آنہ لائبریری ہوتی تھی۔ ایک آنہ روز پر کتاب ملتی تھی۔ اگلی شام کو واپس نہ کی تو دو آنے دینے پڑتے تھے۔ اس لیے کوشش ہوتی کہ اگلی شام آنے نہ پائے، اس سے پہلے ہی کتاب پڑھ لیں۔ لائبریری کلچر ختم ہوگیا ہے۔ اب ایک بات یہ بھی ہوگئی ہے کہ پڑھے لکھے لوگوں کو معاشرے میں پذیرائی نہیں ملتی۔ اس معاشرے میں اس کی عزت ہے جس کے پاس پیسہ ہے۔ ہمارے بچپن میں جس آدمی کا اسٹیٹس اس کی آمدنی سے زیادہ ہوتا تھا اُس کے بارے میں تصور ہوتا تھا کہ وہ رشوت وغیرہ لیتا ہے۔ لوگ ڈرتے تھے رشوت لینے سے۔ آج کیا ہوتا ہے! کھل کر پوچھا جاتا ہے: اوپر کی آمدنی کتنی ہے؟ رشتہ لینے جائیں تو پوچھتے ہیں کہ بچے کی اوپر کی آمدنی کتنی ہے؟ حلال اور حرام کے پیمانے ختم ہوجائیں تو پھر پیسے کی قدر ہوتی ہے، تعلیم کی نہیں۔ آپ سوسائٹی میں دیکھیں، کن لوگوں کو وی آئی پی نشستوں پر بٹھاتے ہیں۔ کسی پڑھے لکھے بڑے آدمی کو آپ پروٹوکول دیتے ہیں؟ قدر کس کی ہوتی ہے؟ پیسے والی کی۔ اس نے پیسہ کیسے کمایا، یہ کوئی نہیں پوچھتا۔ پھر آپ بتائیں کون پڑھے گا!
فرائیڈے اسپیشل: سوسائٹی استاد کی عزت اور وقار میں کمی کا باعث بنی ہے یا استاد خود اس کا ذمہ دار ہے؟
ڈاکٹر محمود غزنوی: دونوں ہی ہیں۔ استاد نے وہ نسل تیار نہیں کی جو ان کو عزت دیتی۔ ہمارے ہاں تعلیم میں جو دوہرا نظام چل رہا ہے وہ ہمارے لیے عبرت ہے۔ آج تک کسی دارالعلوم کے بچے نے داخل ہونے سے لے کر فارغ التحصیل ہونے تک کبھی اپنے استاد کے ساتھ گستاخی نہیں کی۔ میں ان دارالعلوم میں جاتا ہوں، اپنی عزت بھی دیکھتا ہوں۔ ہمارے طالب علم ہمارے سامنے سگریٹ پی رہے ہوتے ہیں، ٹانگیں پھیلاکر بیٹھے ہوتے ہیں۔ وجہ کیا ہے؟ وہ تعلیم دیتے ہیں، علم دیتے ہیں اور علم کی توقیر سکھاتے ہیں۔ وہ استاد اور والدین کا مقام و مرتبہ سکھاتے ہیں۔ ہم کیا کرتے ہیں؟ ہم مارکیٹ کی پروڈکٹ تیار کرتے ہیں۔ ہم کتاب اور قلم کی عزت نہیں کرتے جب کہ قرآن نے قلم کی قسم کھائی ہے۔ جب تک علم اور اس کے ذرائع کی قدر نہیں کریں گے… کاغذ، قلم اور کتاب کی قدر نہیں کریں گے علم آپ کو کبھی فائدہ نہیں دے گا۔ میں اس کا ذمہ دار استاد کو قرار دیتا ہوں کہ استاد نے یہ بات سکھائی نہیں۔ وہ صرف فزکس، کیمسٹری پڑھاتا ہے اور چلا جاتا ہے۔ نہ وہ علم کی قدر سکھاتا ہے، نہ یہ بتاتا ہے کہ یہ زبان جو تم چلا رہے ہو اللہ تعالیٰ کی نعمت ہے کہ ’’ہم نے تمہیں بولنا سکھایا‘‘۔ کمیونی کیشن تو ہے ہی اللہ تعالیٰ کا علم۔ ’’ہم نے تمہیں لکھنا سکھایا۔ ہم نے تمہیں بولنا سکھایا‘‘۔ اچھے سے اچھا بولو… یہ براڈ کاسٹنگ ہے۔ ریڈیو، ٹی وی براڈ کاسٹنگ ہے۔ ریڈیو پاکستان نے اپنا مونوگرام بنایا، اس پر لکھا ’’قولو للناس حسنا‘‘، اچھے سے اچھا بولو۔ اس کے نیچے کیا بول رہے ہوتے ہیں!
فرائیڈے اسپیشل: زمانہ طالب علمی میں آپ بہت متحرک رہے، طالب علم رہنما رہے، طلبہ سیاست میں آپ شامل رہے، لیکن عملی زندگی میں آج آپ اساتذہ کی سیاست میں نظر نہیں آتے، اس کی آخر کیا وجہ ہے؟
ڈاکٹر محمود غزنوی: میں استادز سوسائٹی میں تقریباً دس بارہ سال متحرک رہا۔ تین مرتبہ سینڈیکیٹ کا رکن رہا۔ دو بار سینیٹ میں منتخب ہوکر گیا۔ اکیڈمک کونسل میں منتخب ہوکر گیا۔ بورڈ آف ڈائریکٹر اور بورڈ آف گورنرز میں رہا۔ جب میں نے دیکھا کہ گروہی سیاست شروع ہوگئی ہے تو کنارہ کش ہوگیا۔ سیاست مجھے راس نہیں آئی۔ مجھے ضیاء الحق صاحب نے پیغام بھجوایا: جنٹل مین تمہارا میں نے نام بہت سنا ہے، مجھے تمہاری ضرورت ہے، کچھ دن کے بعد تم سے رابطہ کریںگے۔ اس کے بعد جب جونیجو والا سیٹ اپ آرہا تھا، نوازشریف پنجاب کے وزیراعلیٰ بنائے گئے تھے، انہوں نے گھیرنا شروع کیا۔ حسین حقانی کو لے کر گئے، ان کو نوازشریف کا سیکریٹری بنایا، احسن اقبال کو لے کر گئے۔ مجھے پیغام آیا، صلاح الدین صاحب کے ذریعے انہوں نے مجھ سے ملنا چاہا۔ ترکی کے سفارت خانے میں میری ان سے ملاقات ہو ئی۔ یہ ترکی کا قومی دن تھا۔ ڈاکٹر افضل نے مجھے ملوایا۔ اس کے بعد انہوں نے صلاح الدین صاحب سے کہا: طے ہوا کہ تاج محل ہوٹل میں سردار علی صابری کی برسی ہوگی، صدر صاحب اس کی صدارت کریں گے، آپ اسے کنڈکٹ کریں گے کیونکہ صدر صاحب آپ سے ملنا چاہتے ہیں۔ طے ہوگیا۔ میں گیا، میں نے سردار علی صابری کی برسی کنڈکٹ کی۔ صدر صاحب بیٹھے ہوئے تھے، صلاح الدین صاحب بیٹھے تھے۔ جب عصر کی نماز کے لیے اٹھ کر گئے۔ صلاح الدین صاحب اور ضیاء الحق ہاتھ پکڑے ہوئے تھے۔ ایک طرف سے صلاح الدین صاحب نے میرا ہاتھ پکڑا ہوا تھا۔ چائے پر لے کر گئے تو صدر صاحب نے مجھ سے کہا کہ حسین حقانی کو میں نے قائل کرلیا ہے، آپ کے دوست ہیں، احسن اقبال بھی آگئے ہیں، آپ ہمیںجوائن کریں سندھ میں، میں یوتھ کو لانا چاہتا ہوں، میں اس کلچر کو تبدیل کرنا چاہتا ہوں۔میں نے سوچ کر جواب دینے کا وعدہ کرلیا۔ ایک ہفتے کے بعد صلاح الدین صاحب کا پیغام آیا، انہوں نے کہا کہ ضیاء الحق کے اے ڈی سی کا فون آیا تھا، آپ نے کہا تھا سوچ کے بتائوں گا، کیا جواب ہے، وہ مجھے فون کررہے ہیں۔ میں نے کہا کہ میں سیاست میں نہیں جائوں گا۔ انہوں نے مجھے بلا کر کہا کہ دیکھو زندگی میں ایک چانس سب کو ملتا ہے، تمہیں قدرت چانس دے رہی ہے، تم نکل جائو۔ میں نے کہا میرا مزاج سیاست کا نہیں، میں سیاست نہیں کر سکتا، اس سے پہلے مجھے فنکشنل لیگ جوائن کرنے کی پیشکش تھی، میں نے معذرت کرلی تھی، پیپلزپارٹی نے پیشکش کی تھی، جماعت اسلامی کے سوا کئی پارٹیوں نے مجھے پیشکش کی، لیکن میں نہیں گیا ۔ صلاح الدین صاحب نے مجھے بہت ڈانٹا۔ کئی مہینے وہ مجھ سے ناراض رہے۔ دراصل سیاست میں جس قسم کے لوگ چاہیے تھے، میرا مزاج ویسا نہیں تھا۔ میں خودغرض نہیں ہوسکتا، میں مال نہیں بنا سکتا۔ اخلاص میرا عذاب ہے جس کی وجہ سے اکثر مشکلات بھگتتا ہوں۔
فرائیڈے اسپیشل: آپ کے دو شعری مجموعے شائع ہوچکے ہیں، لیکن آپ کو شہرت ایک مقرر کی حیثیت سے حاصل ہوئی، وہ شہرت شاعری کے میدان میں حاصل نہیں ہوئی، اس کا کیا سبب ہے؟
ڈاکٹر محمود غزنوی: میری زندگی میں بڑے رنگ ہیں۔ میں نے طالب علمی کے دور میں نعت خواں کی حیثیت سے اپنے سفر کاآغاز کیا تھا۔ اس کے بعد میں نے شعروں میں تک بندی شروع کی۔ میری اصل شناخت تقریر تھی۔ اسکول کے زمانے سے میں تقریر میں پہلا انعام لیتا تھا اور ڈبیٹر آف دی ایئر قرار پاتا۔ شاعری شروع کی۔ مجموعے شائع ہوئے۔ ریڈیو کے مشاعرے میں شرکت کی۔ ٹاپ کے شعرا کے ساتھ بیٹھنے کا موقع ملا۔ ریڈیو مرکز تھا۔ اس طرح میری صلاحیتیں نکھرتی چلی گئیں۔ لیکن مشاعروں کا کلچر مجھے پسند نہیں آیا۔ میں بہت کم مشاعروں میں شریک ہوتا ہوں کیونکہ میں کہتا ہوں کہ میں شاعر نہیں مقرر ہوں۔ اللہ کا شکر ہے میرا شمار شعرا میں بھی ہوتا ہے۔ ہماری ہاں گروہ بندی بہت ہے۔ میں نے کئی سال ریڈیو پر مشاعرہ کیا، میں اسسٹنٹ پروڈیوسر تھا اور مشاعرے کروانا میری ذمہ داری تھی اور میں جس چیز سے بددل ہوا وہ یہ تھی کہ وہ فون کرتے اور پوچھتے کہ اور کو ن کون آرہا ہے؟ فلاں آئے گا تو میں نہیں آئوں گا، یا فلاں کو بھی بلائو ۔ پی ٹی وی پر ایک خاص قسم کی لسٹ بنی ہوئی ہے، ہرسال وہی لوگ مشاعروں میں جاتے ہیں۔ پی ٹی وی کبھی بھی نئے لوگوں کو نہیں بلاتا۔ یہ عام مشاعروں میں بھی ہے کہ یہ فلاں کا گروپ ہے، یہ فلاں کا گروپ ہے۔ لابنگ بہت ہے۔ میں اگر لابنگ کرتا تو کہیںسے کہیں پہنچا ہوا ہوتا۔ مجھے پی ٹی وی میں کبھی گھسنے نہیں دیا گیا کہ یہ جماعتی ہے۔ جمعیت کا ہونے کا نقصان اٹھایا میں نے، اور جمعیت والوں نے مجھے پوچھا نہیں۔ میرے ساتھ یہ ہوا کہ
زاہد تنگ نظر نے مجھے کافر جانا
اور کافر یہ سمجھتا ہے کہ مسلماں ہوں میں
فرائیڈے اسپیشل: شاعری تخلیقی کام ہے۔ مشاعرے میں شریک ہونا یا نہ ہونا شہرت کی دلیل تو نہیں ہے۔ بہت سے شعرا ہیں جو مشاعرے میں شریک نہیں ہوتے لیکن بڑے شاعر ہیں، اور بعض کی شہرت ہی صرف مشاعروں کے شاعر کی ہوتی ہے؟
ڈاکٹر محمود غزنوی: اصل میں مشاعرے کے شاعر الگ ہوتے ہیں۔ آپ نے خود ہی کہہ دیا کہ بہت سے شعراہیں جو مشاعرے میں شریک نہیں ہو تے۔ میں بھی بہت کم شریک ہوتا ہوں۔ گروہ بندی سے نالاں ہوں۔ عورت کی سب سے بڑی دشمن عورت ہوتی ہے، یہی حال شاعروں کا بھی ہے۔ ویسے بھی شاعری میرا مشغلہ ہے، مسئلہ نہیں۔ شاعری تو وارداتِ قلبی ہے جب دل پہ چوٹ لگے۔ چوٹ کے لیے عشق کا ہونا ضروری نہیں۔ عموماً لوگ بے وقوفی والی بات کرتے ہیں کہ شاعری کے لیے عشق ہونا ضروری ہے۔ عشق ہونا ضروری نہیں، جب بھی دل پہ چوٹ لگے شعر ہوتا ہے۔ میں تو اپنے ڈپریشن کو شاعری کے لیے استعمال کرتا ہوں۔ بہت شدید ڈپریشن میں ہوتا ہوں تو شعر کہتا ہوں، آج صبح ہی ایک شعر ہوا ؎
کسی کی تلاش میں ہیں ہوائوںکے قافلے
میں نے تو اپنے گھر کا دیا ہی بجھا دیا
اس طرح ٹکڑوں میں شاعری ہوتی ہے، کبھی باقاعدہ نہیں ہوتی۔ کاغذ کے ٹکڑوں پہ کہیں چلتے چلتے اچانک کہہ دیتے ہیں، ایک شعر ہوا پھر دوسرا، اورپھر غزل ہوگئی:
تیری طلب ہی نہیں ہے تو پھر بتا تو سہی
تیرے بنا مجھے آرام کیوں نہیں آتا
میں اپنے غم کا فسانہ سنانا چاہتا ہوں
میرے لبوں پہ تیرا نام کیوں نہیں آتا
اب اسے وسیع تناظر میں دیکھ لیں، میں کیا کہنا چاہ رہا ہوں:
ہر ایک سمت سے آتے ہیں سینکڑوں نامے
تمہاری سمت سے پیغام کیوں نہیں آتا
ہر اعتبار سے مدہوشیاں شناس ہوں میں
تو میرے حصے میں پھر جام کیوں نہیں آتا
ستم گزیدہ پر طعنہ زنوں کی یلغار میں
ستم شعار پہ الزام کیوں نہیں آتا
طلب میں جس کی سرِ دار آگئے محمودؔ
وہ ایک شخص لبِ بام کیوں نہیں آتا
فرائیڈے اسپیشل: آپ ایک ٹی وی چینل سے بھی پروگرام کررہے ہیں۔ ہمارے ہاں جب سے نجی ٹی وی شروع ہوا ہے کہا یہ جارہا ہے کہ بہت آزاد ہوگیا ہے، لیکن یہ شکایت بھی موجود ہے کہ صحافت کا کوئی معیار موجود نہیں ہے۔ ٹاک شوز میں مرغوں کو لڑانے اور سنسنی پھیلانے والی صحافت ہے۔ آپ اس تجزیے سے کس حد تک اتفاق کرتے ہیں؟اور اگر ایسا ہے تو اس کا سبب کیا ہے؟
ڈاکٹر محمود غزنوی:ہمارے ہاں ایک بہت بری چیز جو آگئی ہے وہ ہے سو کالڈ ریٹنگ سسٹم۔ بھائی یہ ریٹنگ کا پیمانہ کیا ہے! 18کروڑ کی آبادی میں سے کل سات سو گھرانے ہیں، جن سے آپ ریٹنگ نکال لیتے ہیں۔ ظاہر ہے وہ پڑھے لکھے ہی ہوں گے، لیکن اکثریت ان کی ہے جو پڑھے لکھے نہیں ہیں، ٹی وی تو وہ بھی دیکھتے ہیں۔ دوسرے یہ ہوا ہے کہ چینلز میں بھانت بھانت کے لوگ آگئے، مثلاً ایک صاحب فزیشن تھے وہ اینکر بن گئے، دوسری خاتون ڈاکٹر تھیں وہ اینکر بن گئیں۔ جن کی یہ فیلڈ نہیں ہے، جنہوں نے یہ پڑھا ہی نہیں ہے نہ ان کی زبان درست ہے نہ انہیں بولنا صحیح آتا ہے۔
ہمارے جتنے میزبان ہیں ان کی اکثریت وہ ہے جنہیں پروگرام موڈریٹ کرنا نہیں آتا۔ ٹاک شوز میں گفتگو کراکے کوئی نتیجہ سننے والوں کو نکال کر نہیں دیتے۔ جس موضوع پر ماہرین کو بلایا جاتا ہے اس پر موڈریٹر ان کی علمی صلاحیت کے مطابق خود تیاری کرتا ہے۔ ایسا نہیں ہوتا کہ اِس کا سوال اُدھر پھینک دیا، اُس کا سوال اِدھر پھینک دیا۔ ہم اسے موڈریٹ کرتے ہیں اور دیکھتے ہیں، جب ایک آدمی اپنی حدود سے باہر نکل رہا ہے اس کو موضوع سے باہر نہیں جانے دیتے۔ لڑنے لڑانے کا تو غیر مہذب طریقہ ہے۔ پھر یہ کہ نوٹس لیتے ہیں اور ایک نتیجہ نکال کر دیتے ہیں۔ یہ موڈریٹر کی ذمہ داری ہوتی ہے، اس لیے کہ لوگ اتنے پڑھے لکھے اور صاحب الرائے نہیں ہوتے کہ بحث کے نتیجے میں اپنی رائے بنالیں۔ ان پروگراموں کا مقصد یہ ہوتا ہے کہ ایک رائے بناکر لوگوں کو دی جائے۔ ہمارے ہاں کیا ہوتا ہے! نتیجہ نہیں نکالتے، کنفیوژن میں چھوڑ دیتے ہیں۔ ٹاک شو کے ذریعے بدتمیزی کرنا… کسی نے گلاس اٹھا کر ماردیا، کوئی مائیک لے کر کھڑا ہوگیا۔ ٹاک شو کا مطلب ہے دلائل سے بات کرنا، نرمی سے بات کرنا، ایک دوسرے سے مہذب طریقہ سے اختلاف کرنا۔ یہی کام ہم مباحثوں میں سکھاتے تھے کہ آپ مقرر کے خیالات سے اختلاف کررہے ہیں مقرر سے نہیں کررہے۔ اس کے خیالات کو دلیل سے رد کیجیے، گالی دے کر کیوں شرمندہ کرتے ہیں۔ ہمارے ٹاک شوز میں جو زیادہ شور شرابہ کرے، جو زیادہ بدتمیزی کرے وہ زیادہ کامیاب اینکر ہوتا ہے۔ ریٹنگ بڑھانے کے لیے ہم کچھ بھی کرسکتے ہیں۔
فرائیڈے اسپیشل: شعبہ ابلاغ عامہ کس حد تک اپنی ذمہ داری پوری کررہا ہے؟ کیا وہ تربیت دے کر ایسے افراد بھیج رہا ہے جو میڈیا کے کلچر کو تبدیل کریں؟
ڈاکٹر محمود غزنوی: ابلاغ عامہ کا جو نصاب ہے اس میں تھیوری ہے۔ مثلاً رپورٹنگ کیسے ہونی چاہیے، اس کی اخلاقیات کیا ہیں، کوڈ آف کنڈکٹ کیا ہوتے ہیں، زبان کا کیا معیار ہے… یہ ساری چیزیں ہم پڑھاتے تو ہیں، سکھاتے بھی ہیں، تربیت بھی کرتے ہیں، لیکن مسئلہ یہ ہے کہ ایک بہت بڑی مشینری میں بہت بڑا جنریٹر ہے، اس کے اندر اگر ہم ایک بیرنگ اپنا لگادیں تو اس بیرنگ کی گولیاں کٹ جاتی ہیں، وہ وائبریٹ کرنے لگتا ہے، اس میں چال آجاتی ہے۔ ہم اصل میں نیلی چڑیا تیار کررہے ہیں۔ ہم اسکول کے زمانے میں چڑیا پکڑتے اور اس کے پر نیلی انک سے رنگ کر چھوڑ دیتے تھے۔ دوسری چڑیاں اسے مارنا شروع کردیتیں، اس لیے کہ اس کا رنگ بدل گیا تھا۔ وہ سمجھتی تھیں کہ یہ ہماری نسل کی ہے ہی نہیں۔ اپنی ہی نسل کو انہوں نے تباہ کردیا۔ اس سے ہمیں مائیں بھی منع کرتی تھیں اور استاد بھی، کہ چڑیوں کو رنگنا نہیں، تمہیں پتا ہے اس کا نتیجہ کیا ہوتا ہے! چڑیا کا یہ بچہ بھوکا رہ جائے گا، یہ اپنے خاندان سے کٹ جائے گا، اس کی سماجی زندگی ختم ہوجائے گی، یہ اپنے قبیلے سے کٹ جائے گا۔ہم جن طالب علموں کو پڑھاتے ہیں ان کو اخلاقی اقدار نہیں سکھاتے۔ نیلی چڑیا بنا کر معاشرے میں بھیج دیتے ہیں۔ وہاں وہ جاتے ہیں تو کہا جاتا ہے: پڑھ وڑھ کر کیا آئے ہو، یہ سب نہیں چلتا۔ انٹرو کیا ہوتا ہے! خبر بنائو سیدھی سیدھی، تھیوری چھوڑو، یہ کرو۔ آپ بتائیں میڈیا میں کتنے لوگ ایسے ہیں جو ماس کمیونی کیشن پڑھ کر آئے ہیں، جنہوں نے صحافت پڑھی ہے؟ مالکان کہتے ہیں: کچھ بھی کرو‘ اخلاقیات تباہ کرو، سب کچھ تباہ کرو بس پیسہ کما کر لائو۔ اخبارات چینلز کے پمفلٹ بن گئے ہیں، کئی کئی صفحے اپنے چینل کی پبلسٹی کے لیے استعمال کرتے ہیں۔ خبر ہی نہیں دیتے۔ اخبار تو نہیں رہے، چینل کا پروجیکشن ہوگئے ہیں۔
اے۔اے۔ سید

Post a Comment

0 Comments