All About Pakistan

6/recent/ticker-posts

کیا نوازحکومت واقعی بچ گئی؟.....


حملہ معمولی نہیں، بہت بڑا تھا۔ پی ٹی آئی اور پاکستان عوامی تحریک کے دھرنوں کی منصوبہ بندی اور ان سے جڑے اقدامات کی منصوبہ بندی کافی عرصہ سے ہورہی تھی۔ مغربی منصوبہ سازوں نے بنیادی منصوبہ بندی اپنے مقاصد کے لئے کی تھی اور بعض داخلی طاقتور حلقے میاں نواز شریف کی دشمنی میں نادانستہ طور پر ہمسفر بن گئے تھے۔ نشانہ پہلی فرصت میں نواز شریف حکومت تو تھی ہی، عدلیہ، میڈیا اور پوری سیاسی قیادت کو رسوا کرنا اور ان سے فوج کو لڑانا مقصود تھا۔ آخری نتیجے کے طور پر اسلام اور پاکستان سے متعلق مغربی ایجنڈے پر عمل درآمد کی راہ ہموار کرنا تھا۔ سازش اس قدر گہری اور ہمہ پہلو تھی کہ اس میں استعمال ہونے والے بعض کرداروں کو بھی سمجھ نہیں آ سکی ۔ کردار بھی اتنے زیادہ تھے کہ ان کے رول کا تجزیہ کرنا اور دوسرے کرداروں سے اس کے رول کو ملانا بھی مشکل ہوگیا تھا۔

 شیخ رشید احمد، چوہدری شجاعت حسین، جہانگیر ترین، شیریں مزاری، اسد عمر اور اسی نوع کے لوگوں کی ڈوریں اندرونی منصوبہ ساز ہلا رہے تھے ۔ قادری صاحب، عمران خان صاحب، شاہ محمود قریشی صاحب جیسے لوگوں کے لئے بنیادی اسکرپٹ باہر سے لکھا گیا تھا لیکن ساتھ ساتھ انہوں نے اندرونی منصوبہ سازوں کی ہدایات پر بھی عمل کرنا تھا۔ فتنہ پرداز گوہر شاہی کے جانشین صاحبزادے اور یہود وہنود کے مہرے یونس گوہر جیسے لوگوں کو بیرونی کرداروں نے عمران خان کا ہمنوا بنا دیا تھا جبکہ کانوں میں سرگوشی کے ذریعے ہدایات دینے والے روزانہ کی بنیادوں پر اندرونی کرداروں سے بھی ہدایات خان صاحب اور قادری صاحب کو پہنچاتے رہے۔

برطانیہ کے لارڈ نذیر احمد کا اپنا رول تھا جسے ادا کرنے کے لئے وہ کئی روز سے اسلام آباد میں مقیم تھے (حالانکہ ان کے دوست یہ کہتے ہیں کہ لارڈ نذیرہر چند ماہ بعد پاکستان اور آزاد کشمیر کی محبت میں ملک کا بار بار دورہ کرتے ہیں اور اس سازشی تھیو ری میں کوئی حقیقت نہیں)۔ جبکہ ایک اور سابق برطانوی رکن پارلیمنٹ چوہدری محمد سرور کو میاں نوازشریف کے کیمپ میں گھسا کر کردار سونپ دیا گیا تھا (یاد رہے کہ گورنر سرور خود اس کی پرزور تردید کر چکے ہیں کہ اس سازشی کہانی میں ان کا کوئی کردار نہیں ہے)۔ مشرقی پاکستان کے حوالے سے شرمناک کردار ادا کرنے والے جنرل عمر کے صاحبزادوں کو منصوبہ سازوں نے اسی طرح تقسیم کیا ہے جس طرح ان کے والد نے مشرقی پاکستان کو تقسیم کیا۔ ایک بھائی میاں نواز شریف کے وزیر بنا دئیے گئے ہیں اور دوسرے بھائی یعنی اسد عمر کو عمران خان کے مشیر خاص کے طور پر ان کے ساتھ لگا دیا گیا ہے حالانکہ جس طرح دونوں ایک باپ کے بیٹے ہیں، اسی طرح مشن بھی دونوں کا ایک ہے۔ پیسے کی کوئی کمی نہ تھی۔ اربوں ڈالر باہر سے بھی آئے اور اندر سے بھی ہزاروں کی تعداد میں فنانسروں کی طرف سے کھربوں ملے ۔
یوں اس ہمہ پہلو اور بھرپور حملے سے میاں نواز شریف کی حکومت جیسی کمزور، نااہل اور کنفیوزڈ حکومت کا بچنا ناممکن نظر آ رہا تھا لیکن حیرت انگیز طور پر وہ بچ گئی۔ وقتی طور پر بچ تو گئی لیکن اس حقیقت سے کوئی انکار نہیں کر سکتا کہ اپنے آپ کو بچانے میں خود اس حکومت کا ذرہ بھر کردار نہیں بلکہ یہ کہنا درست ہوگا کہ بدانتظامیوں اور حماقتوں کی وجہ سے اس حکومت نے خود اپنے گرانے کے کام کو مزید آسان کر دیا۔ بچ گئی ہے تو یہ حکومت معجزانہ طور پر بچ گئی ہے۔ اسے خود عمران خان صاحب اور قادری صاحب یا پھر ان کے ہدایت کاروں کی حماقتوں نے بچا دیایا پھر اسے فوج اور جنرل راحیل شریف نے بچا لیا۔ خود قادری صاحب اور عمران خان صاحب نے ایسی زبان استعمال کی کہ مجبوراً تمام سیاسی قیادت میاں نواز شریف کے ساتھ کھڑی ہو گئی، ورنہ تو وزیراعظم بننے کے بعد میاں صاحب نے اپنے بادشاہانہ روئیے سے صرف اپوزیشن کو نہیں بلکہ خود اپنی جماعت کے لوگوں کو بھی مخالف کیمپ میں دھکیلنے کی پوری کوشش کی تھی ۔ 

آرمی چیف جنرل راحیل شریف کو بھی یہ حکومت ایک نہیں‘ دو نہیں بلکہ متعدد مرتبہ اپنے ادارے کے سامنے شرمندہ کرچکی تھی لیکن پھر بھی انہوں نے جمہوریت کو ختم کرانے کی بجائے، بچانے میں کردار ادا کیا۔ دھرنے جو کہ اب جلسے بن چکے ہیں، کے غباروں سے ہوا نکل چکی ہے اور دھرنا دینے والے دونوں قائدین کے اس قدر بےتحاشہ تضادات سامنے آ گئے ہیںکہ اب وہ حکومت سے زیادہ اپنی اپنی جماعتوں کے لئے خطرہ بن گئے ہیں لیکن سوال یہ ہے کہ کیا نوازشریف حکومت ہمیشہ کے لئے مضبوط ہو گئی۔

میرے نزدیک اس سوال کا جواب نفی میں ہے۔ گزشتہ ڈیڑھ ماہ کے دوران جو کچھ ہوا، اس نے حکومت کی بجائے ریاست کو بے انتہا کمزور کر دیا ہے۔ یوں دیکھا جائے تو کمزور ریاست کو چلانے والی حکومت کبھی مضبوط نہیں ہوسکتی ۔ اگر تو حکومت اور سیاسی قیادت نے فوری اور ہنگامی طور پر کچھ اقدامات نہ اٹھائے تو نہ صرف حکومت کو خطرہ برقرار رہے گا اور کچھ ہی عرصہ بعد کسی اور شکل میں اس حکومت سے نجات کی کوششیں شروع ہو جائیں گی بلکہ حکومت کے ساتھ ساتھ ریاست کے وجود کو بھی سنگین خطرات لاحق ہو سکتے ہیں ۔ اگرچہ اس حکومت کو مشورہ دینا اپنا وقت ضائع کرنے کے مترادف ہے لیکن چونکہ اپنا تو کام ہی یہی ہے، اس لئے اتمام حجت کے طور پر چند تجاویز رقم کر رہا ہوں تاکہ سند رہے اور بوقت ضرورت کام آئے۔

٭ریاستی اداروں اور بالخصوص پولیس کا امیج جس قدر خراب ہو رہا ہے یا پھر ان کا مورال جس قدر گر گیا ہے، اس کی بحالی کے لئے فوری اقدامات کئے جائیں ۔
٭وزیراعظم فوری طور پر اپنی پوری کابینہ کو ختم کرکےمیرٹ اور صلاحیت کی بنیاد پر نئی کابینہ تشکیل دے دیں اور چند چمچوں اور اہل خانہ پر انحصار کرنے کی بجائے فیصلہ سازی اور مشاورت کا دائرہ بڑھائے ۔
٭انتخابی دھاندلی کی تحقیقات کے لئے کمیشن دھرنا دینے والوں سے مفاہمت کا انتظار کئے بغیر فوراً قائم کیا جائے اور اسے دو ماہ کے اندر اندر تحقیقات مکمل کرنے کا پابند بنایا جائے ۔
٭الیکشن کمیشن کی تشکیل نو اور انتخابی اصلاحات کے لئے پارلیمانی کمیٹی کو ہنگامی بنیادوں پر فعال کیا جائے ۔ اس کی سربراہی اپوزیشن کو دی جائے اور اسے جلد ازجلد سفارشات اور قانون سازی کو حتمی شکل دینے کا پابند بنایا جائے ۔
٭ایک خاص سروس گروپ سے تعلق رکھنے والے چند من پسند سرکاری افسران پر تکیہ کرنے کی بجائے تمام اہم مناصب پر فوری طور پر میرٹ اور اہلیت کی بنیاد پر افسران مقرر کئے جائیں ۔
٭احتساب کو سیاست کے لئے استعمال کرنے کی بجائے حقیقی احتساب کا ایسا نظام بنایا جائے جو سب کے لئے یکساں قابل قبول ہو۔
٭ریاستی اداروں بالخصوص فوج کے ساتھ سیاسی حربوں سے کام لینے کی بجائے حقیقی مشاورت سے کام کیا جائے اور ہر معاملے میں صاف گوئی اور شفافیت سے کام لیا جائے ۔
٭ بجلی کے ماہ گزشتہ کے بل منسوخ کردئیےجائیں اور چند خاندانوں یا سرمایہ داروں کو نوازنے کی بجائے عام پاکستانی اور غریبوں کو ریلیف دینے کی کوئی صورت نکالی جائے۔
٭وزیراعظم صرف وسطی پنجاب کا وزیراعظم دکھنے کی بجائے پورے پاکستان کے وزیراعظم بن جائیں۔ سندھ، بلوچستان، خیبر پختونخوا، فاٹا اور گلگت بلتستان کو بھی خصوصی توجہ دیں اور پنجاب کے اندر بھی ترقیاتی کاموں کا رخ وسطی کی بجائے جنوبی پنجاب کی طرف موڑ دیں۔
٭معطل شدہ مسلم لیگ (ن) کو بحیثیت جماعت فعال کر دیا جائے۔ ایک خاندان کی پارٹی بنانے کی بجائے اسے جمہوری پارٹی بنایا جائے۔ پارلیمنٹ کو حقیقی معنوں میں پارلیمنٹ سمجھ کر اسے وقعت دی جائے۔ اپوزیشن کو وقتی سیاسی ضرورتوں کے تحت ساتھ ملانے کی بجائے دائمی طور پر ساتھ چلانے کی کوشش کی جائے۔
٭ضلعی حکومتوں کے قیام کے لئے فوری طور پر بلدیاتی انتخابات کرائے جائیں اور ترقیاتی کاموں سے اراکین پارلیمنٹ کو بے دخل کرنے کی راہ ہموار کی جائے ۔
٭ پاکستان کے اصل اور دائمی مسائل (نئے صوبوں کی تشکیل، سول ملٹری تعلقات وغیرہ) کے حل کے لئے آئینی تبدیلیاں تجویز کرنے کی غرض سے حقیقی مشاورت کا آغاز کیا جائے ۔ ہر شعبے کے لئے الگ الگ کمیشن بنائے جائیں ۔ تمام کمیشنوں میں تمام اسٹیک ہولڈرز کی نمائندگی کو یقینی بنایا جائے ۔ یہ کمیشن اٹھارویں آئینی ترمیم کے لئے بننے والی پارلیمانی کمیٹی کے طرز پر میڈیا کی بجائے خفیہ مشاورت کرے اور جو حتمی تجاویز سامنے آجائیں، انہیں پارلیمنٹ کے سامنے رکھا جائے۔

مکرر عرض ہے کہ قادری صاحب اور عمران خان خان کا کھیل تو نہیں چل سکا لیکن اگر یہ حالت رہی تو یہ حکومت بھی نہیں چل سکتی اور اس کے چلنے کے لئے ضروری ہے کہ حکمران اپنے چلن کو مذکورہ اور ان جیسے دیگر خطوط پر بدلیں۔

سلیم صافی

بہ شکریہ روزنامہ ’’جنگ 
  

Post a Comment

0 Comments