All About Pakistan

6/recent/ticker-posts

انقلاب یا اناؤں کی جنگ؟.....


سوشل میڈیا پر اسلام آباد میں جاری جھڑپوں کے بارے میں تند و تیز بحث کا سلسلہ جاری ہے۔ حکومت کے حامی اور مخالفین دونوں اپنی اپنی جماعت کی حمایت اور دوسروں کے خلاف پیغامات اور تصاویر نشر کر رہے ہیں۔
سینیئر صحافی طلعت حسین نے رات کو ٹویٹ کی: ’بلی اور چوہے کا کھیل یہاں نہیں رکے گا۔ فوج کو بلانا ضروری ہو جائے گا۔ 

واشنگٹن سے صحافی انور اقبال نے فیس بک پر لکھا: جو ہوا وہ نہیں ہونا چاہیے تھا۔ اب آگے کیا ہو گا؟ لیفٹ رائٹ لیفٹ رائٹ یا نواز شریف جمے رہیں گے؟ عمران اور قادری کا خاتمہ یا ناکام مارچ کے لیے نئی زندگی؟ 

زخمیوں کی خون آلود تصاویر، پولیس کی جانب سے فائر کیے گئے آنسو گیسوں کے شیل، اور دوسری تصاویر انٹرنیٹ پر گردش کر رہی ہیں۔ تاہم کچھ لوگوں نے نشان دہی کی ہے کہ ان میں سے کچھ تصاویر کہیں اور سے اٹھائی گئی ہیں۔
مسلم لیگ ن نے تحریکِ انصاف کی نشر کردہ ایک تصویر ٹویٹ کرتے ہوئے لکھا ہے: ’ملک کا قانون توڑ کر انقلاب کی امید ۔۔۔ آئین کی توہین اور غلط تصویر پھیلا کر۔ 

دوسرے لوگوں نے بھی نشان دہی کی ہے کہ پی ٹی آئی نے زخمی لڑکے کی جو تصویر جاری کی ہے وہ دراصل مصر میں ہونے والے احتجاج کی ہے۔
صحافی عمر قریشی نے لکھا ہے: یہ انقلاب نہیں ہے، نہ ہی یہ آزادی ہے۔ یہ گلیوں میں ہونے والی جھڑپیں ہیں جن کے پیچھے کچھ بہت بڑی انائیں کارفرما ہیں۔‘

صحافی عمر قریشی کی ٹویٹ
  
   اقرا ایم خان نے ٹویٹ کیا:  پولیس زائد المیعاد آنسو گیس استعمال کر رہی ہے جو احمقانہ بات ہے۔ 
ان کے علاوہ بھی کئی لوگوں نے ان شیلوں کے استعمال پر سوال اٹھایا ہے۔

رانا جنید گوہر کی ٹویٹ:  یہ نوازی ازم ہے۔ 

خیبر پختونخوا کے وزیرِ اعلیٰ پرویز خٹک نے کہا: ’پولیس نواز شریف کی خاطر اپنے ہی لوگوں کو قتل کر رہی ہے۔ پاکستانی کی نام نہاد جمہوریت ناکام ہو گئی ہے۔ 

ملک سے باہر موجود پاکستانی بھی ان معاملات میں گہری دلچسپی لے رہے ہیں۔
   پی ٹی آئی سعودی عرب‘ نامی ایک صارف نے شعر لکھا 
جمہوریت کے ہاتھوں جمہور مر رہے ہیں

زندہ ہیں صرف نعرے منشور مر رہے ہیں

میڈیا کے خلاف ہونے والے تشدد پر بھی احتجاج کیا جا رہا ہے، اور لوگوں کا کہنا ہے کہ انھیں پولیس اور مظاہرین دونوں کی جانب سے تختۂ مشق بنایا گیا۔
دوسری طرف میڈیا ہاؤسز کی جانب سے مبینہ جانب دارانہ رپورٹنگ پر بھی اظہارِ خیال کیا جا رہا ہے۔ مہر اویس اقبال نے ٹویٹ کیا: ’جیو کے مطابق دوسرے چینلوں کے رپورٹروں نے نہتے پولیس اہلکاروں پر کیمروں اور مائیکوں سے ہلہ بول دیا۔‘

کراچی سے معروف ادیب اور مدیر اجمل کمال نے فیس بک پر لکھا: ’قادری صاحب کے پیروکار تو پرا من لوگ ہیں اور یہ جو ان کے ہاتھ میں لاٹھیاں دکھائی دیتی ہیں یہ تو مسواکیں ہیں ۔۔۔۔ آپ خوامخواہ انھیں بدنام کر رہے ہیں۔

Post a Comment

0 Comments