All About Pakistan

6/recent/ticker-posts

Geo Group and ISI, What is the real conflict?


اخبارات اور ٹی وی چینلز سے حکومتوں کو ہمیشہ شکایات رہتی ہیں کہ آزاد صحافت حکومتوں کی خرابیوں، کرپشن، بدعنوانیوں اور بے ضابطگیوں کو عوام کے سامنے لاتی رہتی ہے۔ لیکن جنگ اور جیو گروپ شاید دنیا کا واحد میڈیا گروپ ہے جس سے ملک کی تمام سیاسی جماعتوں، دینی حلقوں، سماجی تنظیموں، علمی شخصیات، اور تحقیقی اداروں کو ہمیشہ سے بے پناہ شکایات رہی ہیں اور وقتاً فوقتاً اس پر وہ اپنے غم و غصہ کا اظہار کرتے رہے ہیں۔ اور یہ شکایات اتنی بے جا بھی نہیں تھیں۔ 1981ء میں لاہور سے جنگ کی اشاعت کے فوری بعد ممتاز عالم دین اور مرکزی جمعیت اہلِ حدیث کے سربراہ علامہ احسان الٰہی ظہیر کی خفیہ شادی کی خبر نمایاں انداز میں جنگ میں شائع کی گئی۔ یہ خبر نہ صرف غلط تھی بلکہ علامہ صاحب کے ایک مخالف نے فراہم کی تھی۔ اس خبر کی اشاعت پر علامہ احسان الٰہی ظہیر نے روزنامہ جنگ کی اینٹ سے اینٹ بجانے کا اعلان کیا۔ ان کے حامیوں نے شدید احتجاج کیا اور عرصہ تک علامہ صاحب اور ان کی جماعت مرکزی جمعیت اہلِ حدیث جنگ سے شدید نالاں رہے۔ 1981ء ہی میں اسلامی جمعیت طلبہ کے اُس وقت کے ناظم اعلیٰ (غالباً معراج الدین) کے بارے میں طیارہ اغوا کرنے کی جھوٹی خبرشہہ سرخی کے طور پر شائع کی گئی جس پر اسلامی جمعیت طلبہ کے کارکنوں نے جنگ لاہور کے دفاتر آکر احتجاج کیا اور شدید توڑ پھوڑ کی۔ نوازشریف پنجاب کے وزیراعلیٰ تھے تو ان کی طلبہ تنظیم مسلم اسٹوڈنٹس فیڈریشن کو اس میڈیا گروپ کے ساتھ اس قدر شکایات پیدا ہوئیں کہ انہوں نے ارشد امین چودھری کی قیادت میں جنگ اخبار کے بنڈل جلائے اور اخبار کو مارکیٹ پہنچنے نہ دیا۔ الطاف حسین جن دنوں پاکستان میں ہی تھے، انہوں نے جنگ اخبار کے بائیکاٹ کا اعلان کیا اور کئی روز تک روزنامہ جنگ کراچی، حیدرآباد اور سندھ کے کئی شہروں میں تقسیم نہ ہوسکا۔ غلام حیدر وائیں پنجاب کے وزیراعلیٰ بنے تو انہوں نے ایک پریس کانفرنس میں جنگ اور اس سے وابستہ صحافیوں پر سنگین الزامات لگائے اور اُس وقت کے ایگزیکٹو ایڈیٹر جناب اطہر مسعود کا نام لے کر اپنی شکایات ریکارڈ کرائیں۔ یہ تلخی اور لڑائی کئی ہفتوں جاری رہی۔ ایک وقت تھا جب نوازشریف اور چیف ایڈیٹر جنگ میر شکیل الرحمن کے درمیان ایسی گاڑھی چھنتی تھی کہ دونوں ایک چھوٹے طیارے میں بیٹھ کر لاہور کے گرد چکر لگاتے ہوئے گھنٹوں خوش گپیاں کرتے تھے۔ پھر یہ وقت آیا کہ نوازشریف کے وزیر سیف الرحمان نے جنگ کے خلاف متعدد کیس بنا ڈالے۔ اخبار کا کاغذی کوٹہ رک گیا اور جنگ بند ہونے کے قریب آگیا۔ چنانچہ جنگ انتظامیہ نواز حکومت کے خلاف سپریم کورٹ تک میں گئی۔ یہ لڑائی اتنی لمبی ہوئی کہ لاہور اور کراچی میں حکومت کے خلاف جنگ نے احتجاجی کیمپ لگا دیئے۔ اور اب آئی ایس آئی پر الزامات اور اس کے سربراہ کی کردارکشی کے بعد بہت سی چھائونیوں اور فوجی علاقوں میں جنگ کا بائیکاٹ ہورہا ہے، جب کہ عمران خان بھی آستینیں چڑھا کر جنگ اور جیو کے بائیکاٹ کا اعلان کررہے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ مئی 2013ء کی انتخابی دھاندلی میں جیو گروپ ملوث ہے۔ یہ شاید دنیا میں کسی میڈیا گروپ پر اپنی نوعیت کا پہلا الزام ہے۔

دنیا بھر میں اخبارات اور چینلز سے سیاسی جماعتوں کو تھوڑی بہت شکایات ہوتی ہیں لیکن جنگ اور جیو پر لگنے والا الزام بڑا منفرد ہے۔ سیاسی جماعتوں کا کہنا ہے کہ جنگ اور جیو مختلف مواقع پر مختلف سیاسی جماعتوں کے خلاف باقاعدہ اور منظم مہم چلاتے رہے ہیں جو کسی صحافتی ادارے کا کام ہے نہ صحافتی اخلاقیات اس کی اجازت دیتی ہیں۔

اس وقت جیو گروپ کھلم کھلا عمران خان کے خلاف باقاعدہ مہم چلا رہا ہے۔ ان کے خلاف خبروں، تبصروں اور ٹاک شوز کے علاوہ باقاعدہ پر وموز اور اشتہارات چلائے جارہے ہیں جو سب کو نظر آرہے ہیں لیکن کوئی سیاسی جماعت یا میڈیا گروپ اس کی حمایت کررہا ہے نہ کوئی صحافتی تنظیم اسے پسند کررہی ہے۔ اس سے قبل یہی جیو گروپ جس انداز میں آئی ایس آئی کے سربراہ جنرل ظہیر الاسلام کے بارے میں باقاعدہ مہم چلاتا رہا ہے اسے بھی کسی نے پسند نہیں کیا۔ یہی کام اس سے قبل سابق آئی ایس آئی چیف جنرل شجاع پاشا کے خلاف کیا گیا تھا۔ کسی فرد یا ادارے کے خلاف خبر دینا اور بات ہے مگر باقاعدہ مہم چلانا بالکل مختلف بات ہے۔ جنگ اور جیو گروپ تسلسل سے یہی کام کررہا ہے۔ چند ماہ قبل امیر جماعت اسلامی سید منور حسن کے ایک انٹرویو پر یہ گروپ اپنے چینلز اور اخبارات میں باقاعدہ تندو تیز مہم چلا چکا ہے۔ اس معاملے میں تو اس گروپ نے قائداعظم اور شاعر مشرق کو بھی نہیں بخشا۔ اس کے اینکر نجم سیٹھی اور کالم نگار یاسر پیرزادہ نے قائداعظم تک کی کردارکشی میں کوئی کسر اٹھا نہیں رکھی۔ چند ماہ قبل ڈاکٹر طاہرالقادری کے دھرنے کے خلاف جنگ، جیو گروپ نے صرف خبریں نہیں دیں بلکہ باقاعدہ مہم چلائی ہے۔ صدر آصف علی زرداری کے خلاف تو اس گروپ نے اس قدر منظم مہم چلائی کہ پیپلز پارٹی کے لوگ اب تک خود جیو کے پروگراموں میں اس کی شکایات کرتے ہیں۔ مولانا بخش چانڈیو نے یہاں تک کہا کہ ہمیں یہ گروپ غدار اور سیکورٹی رسک تک کہتا رہا ہے۔ راولپنڈی کے ضمنی انتخابات میں یہ گروپ شیخ رشید کے خلاف مہم چلانے میں اس قدر سرگرم تھا کہ شیخ رشید اعلانیہ کہتے تھے کہ وہ انتخاب جیت گئے تو جیو کے اینکر کو سبق سکھا دیں گے۔ پرویزمشرف پر آئین کی پامالی کا کیس شروع ہوا تو جنگ اور جیو نے جو کچھ کیا وہ رپورٹنگ تھی نہ صحافت… وہ کھلی کھلی مہم تھی جسے شاید فوج نے پسند نہ کیا ہوگا۔ جعلی ڈگری کیس والے جمشید دستی ضمنی انتخابات میں دوبارہ امیدوار بنے تو جنگ اور جیو نے ایسی مہم چلائی کہ ان کے مخالف امیدوار نے بھی نہ چلائی ہوگی۔ حالانکہ ان ہی دنوں ملک کے 8 حلقوں میں جعلی ڈگری کی وجہ سے دوبارہ انتخابات ہو رہے تھے اور تمام سیاسی جماعتوں نے سابقہ امیدواروں یا ان کے نامزد افراد ہی کو ٹکٹ دیئے تھے، مگر اس پر سرسری بات کرکے اصل مہم جمشید دستی کے خلاف چلائی گئی۔ لیکن جمشید دستی اس ساری مہم کو ناکام بنا کر جیت گئے۔ پرویزمشرف دور میں جب مسلم لیگ (ق) نے اسلام آباد میں اپنا جلسہ کیا جس سے صدر پرویزمشرف نے بھی خطاب کیا، اس کی کوریج جیو نے ایک انوکھے انداز سے کی۔ جلسہ تو مسلم لیگ (ق) کا تھا اور جیو کے اینکر جلسہ گاہ کے قریب اپوزیشن کے بعض رہنمائوں کو لے کر پہنچ گئے اور اس طرح مسلم لیگ (ق) کے جلسے کے موقع پر جیو نے اس کے خلاف مخالفانہ فضا بنا دی۔ اور اب مسلم لیگ (ن) کے رہنما خواجہ سعد رفیق نے لاہور پریس کلب میں واضح طور پر کہہ دیا ہے کہ جنگ اور جیو نے گزشتہ انتخابات میں واضح طور پر عمران خان کی مہم چلائی اور ہمیں نقصان پہنچایا۔ ان کا کہنا تھا کہ ان کے اور خواجہ آصف کے خلاف جیو نے تکلیف دہ مہم چلائی۔

سیاسی جماعتوں اور شخصیات کے خلاف اس طرح کی مخالفانہ اور کردار کشی کی مہم نے جنگ اور جیو کی ساکھ کو بری طرح متاثر کیا۔ لیکن اتنے بڑے میڈیا گروپ کو چیلنج کرنے کی کسی میں ہمت نہ تھی۔ اب پہلی بار اس بند مٹھی سے ریت آنا شروع ہوئی ہے۔ چنانچہ ہر طرف سے اس گروپ کے خلاف آوازیں اٹھنا شروع ہو گئی ہیں۔ خود جیو پر آکر لوگ اس گروپ سے اپنے دکھڑے بیان کر رہے ہیں۔ اس طرح اب ایک ایسا پنڈورا بکس کھل گیا ہے جو مستقبل کی صحافت کو گھائل کرکے رکھ دے گا۔ جنگ اور جیو سے شکایات لوگوں کو پہلے سے تھیں مگر وہ اس کی طاقت کے سامنے ہمت نہیں کرتے تھے۔ اِس بار اس گروپ نے ملک کے مقتدر ادارے سے ٹکرا کر سب کی زبانیں کھول دی ہیں۔ ورنہ ماضی میں بابائے سوشلزم شیخ رشید اور چودھری ظہور الٰہی اپنے بارے میں توہین آمیز، غلط اور پروپیگنڈہ پر مبنی خبریں شائع کرنے پر جنگ کے خلاف ہتک عزت کے کیس جیت چکے ہیں۔

اب ذرا دیکھیے کہ جنگ اور جیو گروپ پر کون لوگ چھائے ہوئے ہیں جو شاید فیصلہ سازی کے عمل میں شریک ہیں۔ ایک صاحب وہ ہیں جن کے بارے میں فوج کے سابق سربراہ جنرل (ر) مرزا اسلم بیگ نے ایک ٹی وی انٹرویو میں بتایا کہ جب وہ پشاور میں شاید بطور بریگیڈیئر تعینات تھے تو انہوں نے جیو اور جنگ گروپ کے اس ستون کو حراست میں لیا تھا۔ ان پر سنگین نوعیت کے ریاست مخالف الزامات تھے جس پر وہ کئی ماہ زیر حراست رہے۔ بعد میں یہی صاحب بلوچستان میں ریاست کے خلاف جاری مسلح جدوجہد میں شریک رہے۔ پھر نوازشریف کے سابقہ دور میں وہ بھارت جاکر ایسی گفتگو فرما آئے کہ انہیں واپسی پر حساس اداروں نے کئی ہفتے بلکہ کئی ماہ حراست میں رکھا۔ اب ان کی بیٹی امریکی اخبار وال اسٹریٹ جرنل میں کام کرتی ہیں، عمومی طور پر ان کی تحریریں فوج اور آئی ایس آئی کے خلاف ہوتی ہیں۔ ایک صاحب وہ ہیں جنہیں 1981ء میں حساس اداروں نے بعض مبینہ سرگرمیوں کی بنا پر حراست میں لیا تھا اور کئی ماہ تک حراست میں رکھا تھا۔ ایک صاحب 1970ء میں لاہور میں جماعت اسلامی کے دفتر کو نذر آتش کرنے کا ایک کردار تھے، اس واقعہ میں قرآن پاک کے نسخے اور دینی کتب کی بڑی تعداد کو نقصان پہنچا تھا۔ بعد میں ان صاحب پر لاہور کے ایک عالم دین کے گھر کا گھیرائو کرکے وہاں توڑ پھوڑ اور حملہ کرانے کا الزام رہا تھا۔ ایک صاحب بے نظیر کے پہلے دور میں الذوالفقار کے کارکنوں اور طیارہ اغوا کے نتیجے میں بیرون ملک بھیجے گئے جو52 افراد کی بحالی اور ان کو حکومت میں حصہ دینے کی تحریک کے لیے کوشاں تھے اور اس سلسلے میں بنائی گئی ایک تنظیم میں مبینہ طور پر شامل تھے۔ ایک صاحب جو طویل عرصہ تک اس میڈیا گروپ سے وابستہ رہے وہ بھارت سے دوستی میں ہر حد پھلانگنے کے قائل ہیں۔ انہیں ساری خوبیاں بھارت میں اور تمام خرابیاں پاکستان میں نظر آتی ہیں۔

ان حالات میں یہ سوال بہت اہمیت اختیار کر گیا ہے کہ اس لڑائی کا انجام کیا ہو گا۔ جس میڈیا گروپ کو سیاسی جماعتوں کی حمایت حاصل ہے نہ معاصر میڈیا گروپس کی ، جس کی حمایت حکومت بھی واضح طور پر نہیں کررہی، جس کے ہزاروں کارکن اس ساری لڑائی میں مکمل طور پر خاموش تماشائی ہیں، جس کی حمایت میں سول سوسائٹی بھی کھل کر سامنے نہیں آئی، جس کی حمایت اور مخالفت پر صحافتی حلقے منقسم ہیں وہ اتنی سخت اور لمبی لڑائی کیسے لڑ رہا ہے؟ یہ لڑائی کس کی مبینہ آشیرباد سے لڑی جا رہی ہے اور اس کے پس پردہ مقاصد کیا ہیں؟ ان سوالات کے جوابات ابھی آنا باقی ہیں۔ شاید جوڈیشل کمیشن کی رپورٹ میں ان سوالات کے جوابات مل جائیں گے۔ لیکن سردست یہ بات اہم ہے کہ حامد میر پر حملے کی منصفانہ تحقیقات اور ملزموں کی نشان دہی ہونی چاہیے۔ آئی ایس آئی کے خلاف مہم کیوں ہے، اس کے پیچھے کون اور کیوں تھا، اس طرح مختلف سیاسی جماعتوں کو فوج کی حمایت میں جلوس نکالنے کی ضرورت کیوں پیش آئی… ان معاملات کی تحقیقات ہونی چاہیے، لیکن ساتھ ہی جہاں آئی ایس آئی سیاسی و صحافتی معاملات میں مداخلت روکے کیونکہ یہ خود اس کی ساکھ کے لیے نقصان دہ ہے، وہیں جنگ اور جیو گروپ بھی اپنے معاملات کا کھلے دل سے جائزہ لے کر ضروری اصلاح کرے۔ صحافتی تنظیمیں محض نعروں کے پیچھے نہ بھاگیں بلکہ صحافیوں کے مفادات کو مقدم رکھتے ہوئے فیصلے کریں۔ جنگ، جیو گروپ اگر واقعی صحافتی آزادی چاہتا ہے تو اپنے کارکنوں اور صحافیوں کو بھی قلم اور معاش کی آزادی دے، ان کے حقوق انہیں لوٹائے۔ اور پریس کلب یہ معاملات اپنے ہاتھ میں لینے کے بجائیصحافتی تنظیموں کے ذریعے انہیں حل کرائیں اور خود ان کی پشت پر کھڑے ہوجائیں… ورنہ دانستہ یا نادانستہ طور پر صحافتی ٹریڈ یونین ختم ہوجائے گی اور صحافیوں کی تقدیر کے فیصلے تفریحی کلبوں کے ہاتھ میں آجائیں گے، جو ایک المیہ سے کم نہیں ہوں گے۔ میڈیا گروپ آپس کی سر پھٹول کے بجائے کوئی ضابطہ اخلاق بنائیں اور اس پر کام کریں۔ جب کہ حکومت اداروں کی لڑائی میں تماشائی بننے کے بجائے اپنا آئینی کردار ہوش مندی سے ادا کرے۔

سید تاثیر مصطفی

Geo Group and ISI, What is the conflict?

Post a Comment

0 Comments