All About Pakistan

6/recent/ticker-posts

سیاچن معاہدہ کس نے ناکام بنایا........ڈاکٹر ملیحہ لودھی


بھارت میں عام انتخابات کے موقع پر ایک کتاب شائع ہوئی ہے جس میں منموہن سنگھ کی گتھی کو سلجھانے کی کوشش کی گئی ہے۔ منموہن سنگھ پوری دو مدت مکمل کرنے والے بھارت کے کمزور ترین وزیراعظم بن گئے ہیں۔ ان کے دور پر رائے دہندگان کا فیصلہ کانگریس کے لئے ایک شکست فاش کی حیثیت رکھتا ہے۔ ڈاکٹر سنگھ کے وزارت عظمیٰ میں پہلے چار سال کے دوران سنجیا بارو ان کے میڈیا مشیر رہے ۔ اپنی کتاب دا ایکسیڈینٹل پرائم منسٹر (حادثاتی وزیراعظم) میں وہ لکھتے ہیں کہ کس طرح دوسری مدت کے دوران کانگریس کے رہنما کی ساکھ بری طرح متاثر ہوئی جب انہوں نے بدعنوانی کے اسکینڈلز کو نظرانداز کیا اور ایک بے پتوار حکومت کی سربراہی کی۔ انہوں نے منموہن کو ایک ایسا رہنما قرار دیا جو ذمہ داریاں سنبھالنے میں ناکام ہو گیا، جس نے اپنا اختیار نہایت بھونڈے انداز میں سونیا گاندھی کے سامنے سرنڈر کردیا۔بارو نے کتاب میں منموہن کے پریشان کن زوال پر کافی عبرت انگیز تفصیلات فراہم کی ہیں۔ پاکستانی قارئین کے لئے ان کی کتاب کا وہ حصہ زیادہ دلچسپی کا حامل ہوگا جس میں انہوں نے کانگریس سرکار کے پاکستان سے تعلقات کا ذکر کیا ہے۔

بارو نے کشمیر امن فارمولے میں پیشرفت کے لئے سنگھ کی سابق صدر پرویز مشرف کے ساتھ پس پردہ سفارت کاری کو بھی بیان کیا ہے۔ دیگر چیزوں کے ساتھ بارو نے اس بات کا انکشاف بھی کیا ہے کہ کس طرح کانگریس سنگھ کی پاکستان پالیسی پر منقسم ہو گئی تھی۔ زیادہ اہمیت کا حامل یہ انکشاف ہے کہ منموہن سنگھ سیاچن کے مسئلے کا حل تلاش کرنا چاہتے تھے لیکن ان کے آرمی چیف اور سینئر ساتھیوں کی مخالفت نے ایسی کسی بھی امید کا گلا گھونٹ دیا۔ بارو یادیں تازہ کرتے ہوئے بتاتے ہیں کہ دونوں ممالک کے خصوصی نمائندوں کے درمیان ہونے والی پس پردہ ملاقات کے بعد سنگھ نے جون 2005ء میں سیاچن گلیشیئر کا دورہ کیا تھا جہاں انہوں نے بہت سوچ سمجھ کر یہ اعلان کیا تھا کہ سیاچن امن کا پہاڑ ہونا چاہئے نہ کہ تصادم کا۔ باروبتاتے ہیں کہ سنگھ نے یہ بیان ان ریٹائرڈ آرمی جرنیلوں کے ساتھ مشاورت کے بعد دیا تھا جنہوں نے دنیا کے بلند ترین میدان جنگ میں دستوں کی سالاری کی تھی اور ان سب نے سیاچن کا حتمی حل ڈھونڈنے کے سنگھ کے فیصلے کی تائید کی تھی لیکن سنگھ کو اس حوالے سے اپنے دو وزرائے دفاع کی مخالفت کا سامنا کرنا پڑا جن میں سے ایک پرناب مکھرجی تھے جو اب بھارت کے صدر ہیں اور دوسرے اے کے انتھونی ۔ دونوں وزرائے دفاع یا تو فوجی اسٹیبلشمنٹ کے سخت گیر موقف کی تائید کررہے تھے یا پھر اس کے ہم خیال تھے۔

بارو لکھتے ہیں کہ اس وقت کے حاضر سروس بھارتی جرنیل سمجھوتے کیلئے پاکستان پر اعتبار کرنے کو تیار نہ تھے۔ آرمی چیف جنرل جے جے سنگھ نے منافقانہ رویہ اپنایا۔ بند کمرہ اجلاسوں میں جنرل کہتے کہ پاکستان سے سمجھوتہ ممکن ہے لیکن کھلے عام وہ اس وقت انتھونی کی حمایت کرتے جب وزیر دفاع وزیراعظم کے موقف کی مخالفت کرتے۔ بارو اس سے ناواقفیت کا اظہار کرتے ہیں کہ انتھونی کے سخت موقف کے پیچھے کیا راز پوشیدہ تھا لیکن ان کی کتاب یہ واضح کرتی ہے کہ کس طرح ایک تنازعے کے حل کی کوششوں کو ناکام بنایا گیا۔اس سے اسلام آباد کے پرانے دعوے کی تصدیق ہو جاتی ہے کہ سیاچن کے مسئلے کو حل کرنے میں رکاوٹ بھارت کی دفاعی اسٹیبلشمنٹ ہے جس نے دونوں ممالک کے درمیان کسی بھی معاہدے کو سبوتاژ کرنے کیلئےعین نازک لمحات میں مداخلت کی ۔ اگرچہ جنرل جے جے سنگھ نے اپنے خلاف بارو کے الزام کی تردید کی ہے لیکن کتاب پر ان کا ردعمل دراصل اس بات کی تصدیق کرتا ہے کہ فوج کا سخت موقف ہی رکاوٹ بنا تھا۔ انہوں نے کہا کہ فوج نے حکومت کو مشورہ دیا تھا کہ جب تک پاکستان زمین اور نقشے دونوں پر اپنے فوجی دستوں کی موجودگی کی توثیق نہیں کرتا، کسی انخلاء کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ یہ مشورہ یہ بات جانتے بوجھتے ہوئے دیا گیا کہ انخلاء سے قبل توثیق کی شرط پاکستان کے لئے مکمل طور پر ناقابل قبول ہوگی۔مذاکرات کی تاریخ کے ایک طائرانہ جائزے سے ہمیں اُس صورت حال کو سمجھنے میں مدد ملے گی لیکن اس سے قبل ذرا لوک سبھا کیلئے جے پی کے ٹکٹ پر منتخب ہونے والے ایک اور سابق آرمی چیف جنرل وی کے سنگھ کے معاملے پر بات کر لی جائے۔ ایک ایسی پیشرفت جس پر پاکستان میں کسی کی نظر ہی نہیں گئی ہے۔ 2012ء میں جب جنرل وی کے سنگھ آرمی چیف تھے، اس وقت ایک انٹرویو میں انہوں نے کھلے عام منموہن سنگھ کے “امن کے پہاڑ” کے خیال کا مذاق اڑایا اور کہا کہ ہمیں امن کے پہاڑوں کی سوچ کے سامنے نہیں جھکنا چاہئے۔

قابل غور امر یہ کہ انہوں نے یہ بات جون 2012ء میں پاکستان کے ساتھ مذاکراتی دور سے قبل اور برفانی تودہ گرنے کے واقعے کے بعد کہی جس میں 139 پاکستانی فوجی اور سویلینز برفانی تودے تلے دب کر جاں بحق ہوگئے تھے۔ اس وقت وی کے سنگھ نے آرمی چیف جنرل اشفاق پرویز کیانی کی سیاچن گلیشیئر سے دونوں ممالک کی فوجوں کے انخلاء اور تمام تنازعات کے پرامن حل کی اپیل بھی مسترد کردی۔جنرل وی کے سنگھ نے کہا کہ یہ کوئی نئی بات نہیں۔ انہوں نے بھارتی فوج کے کسی بھی انخلاء کا امکان مسترد کر دیا اور بلاوجہ یہ بھی کہا کہ جموں و کشمیر بھارت کا ہے۔ ان خیالات کے حامل وی کے سنگھ اب بھارت کی حکمراں جماعت کے ایک رکن بن چکے ہیں اور مشکل ہی ہے کہ وہ سیاچن کے مسئلے کے حل کی حمایت کریں۔گزشتہ ماہ اس تنازع کو پورے 30 سال ہوگئے ہیں۔اپریل 1984ء میں بھارت نے غیر قانونی طور پر میگھ دوت کے نام سے ایک بڑا چھاتہ بردار آپریشن کرکے اہم چوٹیوں پر قبضہ کرلیا تھا۔ انٹیلی جنس میں ناکامی کا نتیجہ یہ نکلا کہ جب تک پاکستان کو علم ہوا اور اس نے اپنی فوج روانہ کی تب تک بھارتی فورسز سالتورو رینج کے ساتھ تقریباً تمام بلند پوزیشنوں پر قبضہ کرچکی تھیں۔

بھارتیوں کو ان چوٹیوں سے واپس ہٹانے کی پاکستانی کوششیں ناکام ثابت ہوئیں۔ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ دونوں فریقین دنیا کے انتہائی نامہربان خطے پر اپنے فوجی بڑھاتے رہے اور چوکیاں قائم کرتے رہے جسے ابتدائی طور پر دونوں ممالک نے کوئی تذویراتی اہمیت نہیں دی تھی۔ پہلی جھڑپوں کے فوراً بعد مسئلے کے حل کے لئے سفارتی کوششیں کی گئیں۔ یکے بعد دیگرے دفاعی حکام کے درمیان مذاکرات کے 13 ادوار ہوئے جن میں سے آخری جون 2012ء میں ہوا تھا۔ سیاچن کے مسئلے پر بات چیت کی تاریخ سے پتہ چلتا ہے کہ کس طرح بھارت بنیادی معاہدے سے پھر گیا اور اپنا موقف سخت کرتا چلا گیا۔

جون 1989ء میں ہونے والے پانچویں دور کو پیشرفت کا دور قرار دیا گیا جس کے دوران دونوں ممالک ایک سمجھوتے پر پہنچے اور17جون کو اس کے لئے مشترکہ بیان جاری کیا گیا۔اس معاہدے میں ایک تصفیہ کے اصولی عناصر کا احاطہ کیا گیا یعنی فورسز کی ازسرنو تعیناتی، طاقت کے استعمال سے گریز اور شملہ معاہدے سے مطابقت رکھتے ہوئے زمین پر مستقبل کی پوزیشنز کا تعین۔ یہ معاہدہ تعلقات کی ایک بہتر فضا میں ممکن ہوا جسے وزرائے اعظم بے نظیر بھٹو اور راجیو گاندھی نے تیار کیا تھا۔ جب راجیو نے جولائی 1989ء میں اسلام آباد کا دورہ کیا تو دونوں نے اس معاہدے کی توثیق کی لیکن تنازع کا تصفیہ ایک فریب ثابت ہوا جب بھارت 1989ء سمجھوتے سے پھر گیا اور اس نے بنیادی طور پر اپنی فوج کے دباؤ میں آکر ایک معاہدے کے لئے شرائط تبدیل کرنے کی کوشش کی اور اب بارو کی کتاب بھی اس بات کی تصدیق کرتی ہے کہ دفاعی سروسز ہی سیاچن سے انخلاء کی مخالفت کرتی رہیں۔

جب نومبر 1992ء میں پاکستان نے مذاکرات کے چھٹے دور میں 1989ء کے معاہدے کو نافذ کرنے پر بات کرنے کی کوشش کی تو بھارت نے ازسرنو تعیناتی سے قبل موجودہ پوزیشنوں کی مکمل توثیق کرنے پر زور دیا اور پچھلے تصفیہ شدہ معاملات کو دوبارہ سے کھولنے کی کوشش کی۔ بعدازاں مذاکرات کے تمام ادوار میں توثیق پر ہی سوئی اٹک کر رہ گئی اور یہی چیز تعطل کی وجہ بن گئی۔

1989ء کے معاہدے میں موجودہ پوزیشنوں کی نشاندہی کا کوئی نکتہ شامل نہیں۔ پاکستان توثیق کرنے سے انکار کرتا ہے کیونکہ اول اس کا مطلب ایک غیرقانونی اقدام کو قانونی قرار دینا ہوگا۔دوم مذاکرات میں بھارت کے قانونی دعوے کو ایک بنیاد فراہم کرنا بعدازاں جس کے ذریعے وہ لائن آف کنٹرول پرNJ 9842 کے پار والے علاقے کی حد بندی کرسکے گا۔ یہ وہ علاقہ ہے جسے 1949ء اور 1972ء کے معاہدوں کے بعد حد بندی کیے بغیر یونہی چھوڑ دیا گیا تھا لیکن 1970ء کے وسط سے وہ پاکستان کے کنٹرول میں تھا۔نومبر 1992ء کو ہونے والی بات چیت میں پاکستان نے لچک کا مظاہرہ کرتے ہوئے معاہدے کے ضمیمے میں اس حد تک موجودہ پوزیشنوں کو ریکارڈ پر لانے کی پیشکش کی کہ وہ علاقے پر بھارت کے قانونی دعوے کی بنیاد نہ بنے لیکن بھارت مکمل توثیق پر اصرار کرتا رہا۔


حالیہ برسوں میں متعدد سابق بھارتی فوجی افسروں نے اب چین کا عذر تراشا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ اگر بھارت سالتورو رینج پر اپنا قبضہ برقرار نہیں رکھے گا تو پاک چین محور درہ قراقرم پر اپنا کنٹرول جمالے گا جس کے نتیجے میں لداخ کی سیکورٹی خطرے میں پڑ جائے گی۔ کسی بھی بھارتی انخلاء سے پاکستان کو پورے سالتورو رینج سے درہ قراقرم تک دسترس حاصل ہوجائے گی جس سے بچنے کے لئے انخلاء نہیں کرنا چاہئے۔ نتیجتاً مئی 2011ء اور جون 2012ء میں پاکستان نے دیکھا کہ بھارت کے موقف میں مزید سختی آگئی۔ دہلی ایسے اقدامات پر بضد رہا جو اس پوری ترتیب کو ہی الٹا دیں گے جس پر وہ پہلے آمادہ ہو چکا تھا یعنی فوجی انخلاء، اور حد بندیوں پر مذاکرات کے بعد متنازع زون سے باہر آجانا۔دونوں دور بے نتیجہ ختم ہوگئے۔ بھارت اسی پر مصر رہا کہ موجودہ پوزیشنوں کی زمین اور نقشے پر توثیق و حد بندی کی جائے اور فوجی انخلاء اور مستقبل کی پوزیشنوں کے تعین کو فی الحال کونے میں رکھ دیا جائے۔ فوجی انخلاء کے لئے درکار اقدامات کی ترتیب پر اختلافات کو حل کرنے کی پاکستان کی کوشش بھی مسترد کردی گئی، اس پیشکش کے ذریعے کہ ہر فریق بیک وقت اپنی خواہش کے مطابق قدم اٹھائے لیکن سفارت کاری کی یہ تاریخ چاہے کتنی ہی تلخ کیوں نہ ہو، اسے ایک ایسے تنازع کے حل کی مستقبل کی کوششوں میں رکاوٹ نہیں بننا چاہئے جو جان اور مال کی بہت بڑی قیمت وصول کرچکا ہے لیکن سوال یہ ہے کہ کیا نئی دہلی میں نئی حکومت یہ مسئلہ حل کرنے میں دلچسپی لے گی؟ اور کیا وہ اپنی دفاعی افواج کی مخالفت پر قابو پاسکے گی؟

بہ شکریہ روزنامہ "جنگ 

Post a Comment

0 Comments