All About Pakistan

6/recent/ticker-posts

نریندر مودی اور مسلمان


بھارت کے عام انتخابات کے نتائج جمعہ کے روز خلیج کے معیاری وقت بارہ بجے سنائے جانے کی توقع ہے۔ ہر کوئی ان نتائج کو بھارت کے مستقبل کیلیے اہمیت کے زاویے سے دیکھنے لگا ہے۔ بلاشبہ ہر انتخابی نتیجہ اہمیت کا حامل ہوتا ہے لیکن بھارت کے سات اپریل سے 12 مئی تک جاری رہنے والے یہ عام انتخابات جس ماحول اور جن رجحانات کے حامل بلکہ جس قماش کے نیتاوں کے ساتھ ہوئے ہیں ان کی وجہ سے انتخابی نتائج کی اہمیت اور بڑھ گئی ہے۔ ان نتائج کا براہ راست اثر بھارت کے مستقبل پر ہو گا۔

یہ پہلے عام انتخابات تھے جن کے دوران بھارتی نیتاوں کا ایک دوسرے کے بارے میں کینہ کا کھلا اظہار سامنے آیا۔ ایک دوسرے کو حد سے زیادہ غیر پارلیمانی الفاظ سے مخاطب کیا گیا اور القابات سے نوازا گیا۔ مسلمانوں اور سیکولر طبقات دونوں کیلیے یہ انتخابات ایسا آبی بہاو رہے جو دوطرفہ فاصلوں کو جنم دیتا ہے۔

ایک جانب کانگریس کے بوڑھے محافظ اپنے اتحادیوں کے ساتھ موجود تھے تو دوسری جانب بھارت کا نیا لیڈر نریندر مودی تھا، جس کی نمود بھارت کیلیے ایک شہابیے کی طرح ہے۔ جو لوگ بھارت سیکولر ازم کے تارو پود بکھرتے نہیں دیکھنا چاہتے یا اس کے خرمن پر کوئی ایسی چنگاری گرتے نہیں دیکھنا چاہتے، یقینا ان کیلیے یہ ایک خطرے کی گھنٹی ہے۔ مودی کو ایسے لوگ ایک بد روح یا عفریت کے طور پر دیکھتے ہیں، کہ جس کے وزیر اعلی گجرات ہوتے ہوئے ہزاروں بیگناہ انسانوں کو موت کے گھاٹ اتار دیا گیا تھا۔ انسانی خون کی بہائی جانے والی اس گنگا سے مودی کی ماتحت پولیس نے بھی ہاتھ دھونے کا اہتمام کیا اور اس ہولی میں شامل ہو کر سر خ چھینٹوں سے اپنے دامن اور ہاتھ رنگین کیے۔

نریندر مودی کیخلاف اس قتل عام کی سازش کا احوال بھارتی میڈیا میں موجود رہا، لیکن مودی نے بڑی مکاری سے خود کو دور کر لیا۔ نریندر مودی نے اپنی کابینہ اور محرم راز مایا کوڈنانی سے محروم ہونے کا فیصلہ کیا۔ مایا کوڈنانی آج جیل میں عمر قید کی سزا بھگت رہی ہے کہ اس نے حملہ آور جلوس کی قیادت کی تھی۔ یہی وہ جلوس تھا جس نے 97 مسلمانوں کو ٹکڑے ٹکڑے کر دیا تھا۔


بھارتی میڈیا اور عدلیہ کو اس چیز کا کریڈٹ ملنا چاہیے کہ بی جے پی کی دھمکیوں کے باوجود حقائق کو بے نقاب کرنے کی اپنی سی کوشش کرتے رہے۔ لیکن جہاں تک مودی کا تعلق ہے کہ اس کی وزارت اعلی کے دوران ہزاروں بے گناہ مارے گئے، تاہم مودی نے استعفا تو کیا دینا تھا افسوس کا ایک جملہ بھی نہ کہا، افسوس نہ ندامت۔ یہ ہے مودی جس کے وزیر اعظم ہندوستان بننے کے حق میں کئی جائزے آ چکے ہیں۔

اس مودی کا کوریا کے وزیر اعظم سے کیا مقابلہ جس نے کشتی کے حادثے پر پورے ملک کی حکومت سے دست برداری اختیار کر لی تھی۔ بھارت کے متوقع پردھان منتری کا فلسطینی اتھارٹی کے صدر محمود عباس سے بھی کیا تقابل ہو سکتا ہے جو گاندھی کے عدم تشدد کے فلسفے پر عمل پیرا رہتے ہوئے اسرائیلی جیسی ظالم و جابر حکومت کا مقابلہ کر رہا ہے جو اپنے تصرفات میں مہذب دنیا کے تمام اصول فراموش کر چکی ہے۔ اس پر مستزاد یہ کہ اسرائیلی حکومت کو اپنے تصرفات میں بے بس امریکی انتظامیہ کا بھرپور تعاون حاصل ہے جو صہیونیت کے زیر اثر کانگریس کے سامنے بے دست و پا ہے۔

اسی وجہ سے آج بہت سارے بھارتی پوچھتے پھر رہے ہیں کہ ایل کے ایڈوانی، جسونت سنگھ اور اٹل بہاری واجپائی ایسے رہنماوں کی موجودگی میں یہ ''چائے والا ''کیسے سب سے آگے آ گیا؟ بھارت جسے بھارتی مہان بھارت کہتے ہیں اس میں تو بہت سارے اہل لوگ موجود ہو سکتے تھے۔ اس کی آبادی کا تنوع ہی اس کی مضبوطی اور ترقی کا سبب سمجھا جاتا ہے۔ لیکن آج یہ بہت سارے مسائل اور چیلنجوں کی زد میں ہے۔ نا خواندگی، بھوک، رنگا رنگ قسم کی بیماریاں اور تقسیم در تقسیم ۔

آج تو بھارت کو سازش کرنے والے نہیں بلکہ ایک متاثر کرنے والے لیڈر کی ضرورت تھی۔ انڈیا کو ایسا لیڈر چاہیے تھا جو لوگوں کے گھاو بھرے نہ کہ گھاو دے، ایک ایسا لیڈر بھارت کی ضرورت تھا جو اس کی سب قوموں اور سب مذہبوں کے لوگوں کیلیے ہوتا، سب کو اپنا اپنا لگتا، سب کا اپنا ہوتا۔ جو ہر جاتی کے لوگوں کو، ہر بولی کے بولنے والوں کو اور ہر مذہب کے ماننے والوں کو آپس میں جوڑنے کا باعث بنتا نہ کہ توڑ پھوڑ اس کی پہچان ہوتی۔

مودی کی وزارت عظمی کو دیکھ کر پریشان اور شرمسار ہونے والے مسلمانوں کو میرا مشورہ ہے کہ وہ فرعون جدید کے سامنے موسی کی طرح کھڑے ہو جائیں۔ لیکن بدقسمتی سے مسلمان باہم کٹے پھٹے پڑے ہیں۔ ان کے اپنے بنائے ملا رہنماوں نے ان کیلیے کچھ نہیں کیا ہے۔ سماجی سطح پر ترقی کیلیے تعلیم زینہ ہے۔ اب مسلمانوں کو چاہیے کہ وہ بھارت کے نظام سے فائدہ اٹھائیں جو بہرحال کسی حد اپنی بات کہنے کا موقع دیتا ہے جو نظام ظاہرا شائستگی اور رکھ رکھاو کا حامی ہے۔ مسلمانوں کو انتہا پسندی، جہالت اور ملاوں کی پیدا کردہ رکاوٹوں کو جھٹک دینا ہو گا۔ یہ سمجھنا ہو گا کہ سیکولر ازم اور لبرل ازم بھارت کے بہتر مسقتبل کے لوازمات ہیں۔ اس لیے ہر ایک کو اس نظام سے فائدہ اٹھانے کی کوشش کرنا چاہیے۔

بھارت کی اکثریت بڑی تصویر کو دیکھ رہی ہے، ایک ایسے بھارت کی تصویر جو عالمی سطح پر خوشحالی کیلیے کردار ادا کر سکتا ہے۔ اس میں بڑے مواقع ہیں بھارتی مسلمانوں کو اس بھارتی ٹرین پر سوار ہونا چاہیے۔ وہ اپنے آپ کو قابل رحم بنا کر اور شرمسار ہو کر اس گاڑی پر سوار نہیں ہو سکتے۔ اگر ایسا کیا تو گودھرا ایکسپریس نہیں بنے گی۔ مسلمانوں کو سوچنا چاہیے کہ مودی حکومت میں آتا ہے تو پھر کیا ہوا، بلا شبہ وہ کافی چالاک ہے لیکن سوسائٹی کے ایک بڑے حصے کو انصاف کے حصول کیلیے تشدد کی طرف نہ جانے دیجیے۔ وزیر اعظم بننے کی صورت میں اس کے مفادات کا تقاضا ہو گا کہ وہ بات چیت کرے اور ہر ایک کے ساتھ طے کرکے چلے۔ مودی کبھی بھی تاریخ میں خود کو ذلیل ہوتا نہیں دیکھنا چاہے گا، اگر کوئی شخص گاندھی کے اصولوں کو رد کر کے اہل ہندوستان کو رلائے گا تو بھارت کے لوگ اسے کبھی نہیں معاف کریں گے۔

Post a Comment

0 Comments