All About Pakistan

6/recent/ticker-posts

Pakistan Economy : Devaluation of the dollar is fake? By Dr. Shahid Hassan



ڈالر کی قدر میں کمی کا سلسلہ جاری ہے۔ بدھ کی صبح ڈالر اوپن مارکیٹ میں 98 روپے کا ہوگیا۔ پاکستانی روپیہ ڈالر پر حاوی ہوتا جارہا ہے۔ رواں ماہ کے آغاز سے اب تک ڈالر کی قدر میں 6 روپے 16 پیسے کی کمی واقع ہوئی ہے۔ ساڑھے آٹھ ماہ کے بعد ڈالر اس سطح پر آیا ہے۔ ماہرین کے مطابق ڈالر کی قدر میں کمی ملک میں رواں ماہ ڈالر کی آمد کی توقعات کے باعث ہورہی ہے، جبکہ فاریکس ڈیلرز کے مطابق عوام بھی ڈالر کو روپے میں تبدیل کروارہے ہیں۔ دوسری جانب رواں مالی سال کے دوران 10 ارب 20 کروڑ ڈالر ترسیلاتِ زر کی صورت میں موصول ہوئے، جو گزشتہ عرصے کی نسبت 11 فیصد زیادہ ہیں۔

وفاقی وزیرِ خزانہ اسحاق ڈار نے کہا ہے کہ پاکستان کے زرِ مبادلہ کے ذخائر اضافے کے بعد 9.37 ارب ڈالر تک پہنچ گئے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ حکومت کی کوششوں نے مثبت نتائج دکھانا شروع کیے ہیں اور ہم جلد ہی اپنے اعلان کے مطابق مارچ کے مہینے کے آخر تک زرِ مبادلہ کے ذخائر کو دس ارب ڈالر تک لے جائیں گے۔ اسحاق ڈار نے کہا کہ حکومت ایک منصوبے کے تحت زرِمبادلہ میں اضافے کی پالیسی پر کاربند ہے جو کولیشن سپورٹ فنڈ، اتصالات سے بقایا جات کی وصولی اور یورو بانڈزکی وصولیوں کی مدد سے ممکن ہوگا۔ روپے کے مقابلے میں ڈالر کی قدر میں نمایاں کمی کی وجوہات کے بارے میںٹاپ لائن سیکورٹیز کے چیف ایگزیکٹو محمد سہیل کا کہنا ہے کہ ڈالر کی قدر میں گراوٹ کی بڑی وجہ پاکستان ڈیویلپمنٹ فنڈ کی جانب سے ڈیڑھ ارب ڈالر کی امداد ہے جس پر ایک خوشگوار حیرت ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ چند ماہ پہلے کسی کو وزیرِ خزانہ کی اس بات پر یقین نہیں آرہا تھا کہ پاکستان کے زرمبادلہ کے ذخائر دس ارب ڈالر تک جاسکتے ہیں۔ادھر پاکستان فاریکس ڈیلرز ایسوسی ایشن کے صدر ملک بوستان کا کہنا ہے کہ روپے کی قدر میں کمی کے ذمہ دارسٹے باز تھے جنہوں نے مارکیٹ سے ڈالر خرید کر ذخیرہ کرلیے۔ انہوں نے الزام لگایا کہ اس عمل میں کچھ بینک بھی ملوث تھے جنہوں نے ڈالر خریدنے کے لیے کارٹیل بنائے جس کا ثبوت یہ ہے کہ نجی بینکوں کے پاس سرکاری بینکوں سے زیادہ ڈالر ہیں۔ انہوں نے کہا کہ جب حکومت نے اس ضمن میں واضح اعلانات کیے تو اس کا اثر مارکیٹ پر بھی پڑا۔ روپے کی قدر میں کتنا اضافہ ممکن ہے اس بارے میں ملک بوستان کا کہنا ہے کہ اگر حکومت برآمد کنندگان کے دباؤ میں نہ آئے تو اگلے تین ماہ میں ڈالر 90 روپے کی سطح پر آسکتا ہے۔

دوسری جانب ماہرِ معاشیات، انسٹی ٹیوٹ آف اسلامک بینکنگ اینڈ فنانس کے چیئرمین ڈاکٹر شاہد حسن صدیقی کا فرائیڈے اسپیشل سے بات چیت میں کہنا ہے کہ روپے کی قدر میں اضافہ بظاہر اچھی بات ہے مگر انہیں یہ سب مصنوعی لگ رہا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ آئی ایم ایف کے پاس ہم جب بھی جاتے ہیں تو وہ کہتا ہے کہ روپے کی قدر میں کمی کریں، اور یہ 2001ئ، 2008ء اور2013ء میں بھی ہوچکا ہے اور ہمیشہ روپے کی قدر میں کمی کی جاتی رہی ہے۔ اس دوران سٹے باز میدان میں آجاتے ہیں اور ضرورت سے زیادہ روپے کو گرا کر خوب دولت کماتے ہیں۔ اس سٹے بازی اور غلط کاری میں بینکوں کا بھی اہم کردار ہوتا ہے۔2001ء میں بھی گورنر اسٹیٹ بینک نے کہا تھا کہ سٹے بازی ہوئی ہے، اور2008ء میں مشیر خزانہ نے کہا تھا کہ سٹے بازی ہوئی ہے اور بینکوں کا اس میں کردار ہے، ہم ایکشن لیںگے۔ اب جو روپے کی قدر میں کمی ہوئی اس میں بھی سٹے بازی ہوئی جس میں بینکوں کا بھی کردار ہے، اور اسحاق ڈار نے کہا ہے کہ ہم سٹہ بازوں کے خلاف ایکشن لیں گے۔ لیکن کسی کے خلاف کبھی ایکشن نہیں ہوا، اور یہ اربوں روپے کما کر بچ کر نکل جاتے ہیں۔ اب یہ جو ڈالر کی قیمت روپے کے مقابلے میں بڑھی تھی اور ڈالر 98 روپے سے111 روپے کا ہوگیا تھا اس کا جواز نہیں تھا۔آئی ایم ایف چاہتا تھا کہ 103 سے 104روپے پر آجائے، مگر سٹے بازوں نے اس کو 111روپے تک پہنچا دیا۔ اسحاق ڈار نے کوشش کی کہ اس کو کم کیا جائے۔ اسٹیٹ بینک نے کوشش کی اور کہا کہ روپے کو مضبوط کریں۔ دیکھیں ایکسچینج کمپنیوں کی ایسوسی ایشن بھی آفر کرتی ہے کہ آپ کو اگر سپورٹ چاہیے تو ہم آپ کو کئی ارب ڈالر دینے کو تیار ہیں۔ تو ماضی میں تو ایسا بھی ہوا کہ 25، 30 فیصد تک مختصر مدت میں بہتری آئی ہے، اور ابھی جو ہوئی ہے وہ 10فیصد ہوئی ہے۔ یہ کوئی بہت بڑی بات نہیں ہے۔ سٹے بازی تھی،اس عمل کو الٹدیا گیا۔ اب سوال یہ ہے کہ اگر واقعی بہتری آئی ہے تو پیٹرول کے نرخ کم ہونے چاہئیں، درآمدی اشیاء کے نرخ بھی کم ہونے چاہئیں، ٹرانسپورٹ کے کرائے کم ہونے چاہئیں۔ اگر ایسا نہیں ہے اور اِس وقت تو یہ بالکل واضح ہے کہ پاکستان کے معاشی اشاریے خراب ہیں تو روپے کی قدر کو اتنا گرانے کی ضرورت تھی اور نہ جس طرح انہوں نے ٹھیک کیا ہے اس کی ضرورت ہے۔

ڈاکٹر شاہد حسن صدیقی نے کہا کہ اعداد وشمار اس کی نفی کرتے ہیں۔ (1)جاری کھاتوں کا خسارہ چار سو چالیس ملین سے بڑھ کر دو بلین روپے ہوگیا ہے۔ (2) پاکستانی شرح نمو چار یا پانچ فیصد رہنے کا امکان ہے۔ (3) پاکستان کے جو تجارتیشراکت دار ہیں اُن کے یہاں مہنگائی دو فیصد ہے جبکہ ہمارے یہاں نو فیصد ہے۔ سات فیصدکا فرق تو بہرحال ہے۔ اِس مرتبہ کھیل ہوا ہے اور کھیل کا تعلق پاکستان کی سلامتی سے ہے۔ وال اسٹریٹ جرنل کہتا ہے کہ اگر پاکستان نے نجکاری کی تو اس کی قسمت بدل جائے گی۔ ہمیں تو پتا ہے کہ نجکاری سے کیسی قسمت بدلتی ہے! تو اب اس کی جو صحیح صورت حال ہے وہ یہ ہے کہ نواز حکومت نے ایک تیر سے دو شکار کیے ہیں۔ مسلم لیگ (ن) نے اپنے منشور پر عمل نہیں کیا۔ پاکستان اوورسیز چیمبر کا کہنا ہے کہ یہ اپنے منشور کے صرف ایک نکتہ پر عمل کرلیتے اور ہر قسم کی آمدنی پر ٹیکس لگاتے تو آپ کو ایک سال میں پچیس سو ارب روپے مل جاتے۔ ظاہر بات ہے طاقتور طبقے یہ نہیں چاہتے کہ ہر قسم کی آمدنی پر ٹیکس لگایا جائے۔ تو انہوں نے ایک تیر سے دو شکار اس طرح کیے کہ نجکاری کا پروگرام بنایا اور وال اسٹریٹ جرنل کو انٹرویو میں اسحاق ڈار نے کہا کہ ’’3جی، 4جی لائسنس سے ہمیں آٹھ ارب ڈالر تک وصول ہوں گے‘‘ اور یہ تاثر پیدا کیا کہ پاکستان کے محفوظ ذخائر بڑھنے والے ہیں۔ حالانکہ میرا تو خیال ہے کہ دو ارب ڈالر بھی مشکل سے آئیں گے۔ اس میں خطرناک بات یہ ہوئی ہے کہ انہوں نے اپنے انٹرویو میں یہ کہا کہ ہم پاکستان پیٹرولیم اور آئل اینڈ گیس کاپوریشن کے شیئرز بھی عالمی مارکیٹ میں فروخت کریں گے، جس میں غیر ملکی بھی شامل ہیں، اور حبیب بینک کے شیئر بھی فروخت کریں گے۔ پہلی بات تو یہ ہے کہ منفعت بخش اداروں کی فروخت مسلم لیگ (ن) کے منشور کا حصہ نہیں تھی۔ اب کھیل یہ ہوا جس میں عالمی مالیاتی اداروں کی دلچسپی بھی شامل ہے کہ پاکستان کے جو اہم اثاثے ہیں وہ غیر ملکیوں کے قبضے میں چلے جائیں۔ عوام کو یہ سوچنا ہوگا کہ ٹیکسوں کے ضمن میں اپنے منشور پر عمل کرنے کے بجائے قومی اثاثوں کو بیچنے کا پروگرام ان کے منشور سے متصادم ہے، اور ٹیکسوں کی جو وصولی ہے وہ سال کے سال ہوتی ہے، اگر اِس سال ڈھائی ہزار ارب بڑھتے ہیں تو اگلے سال بھی بڑھیں گے اور بعد میں بھی بڑھیں گے۔ لیکن نجکاری کا پیسہ ایک دفعہ آجاتا ہے اور وہ کھا جاتے ہیں تو کیا قوم یہ کرنے کے لیے تیار ہے! ٹیکسوں کے ضمن میں جو منشور ہے اس پر عمل نہ ہو اور نجکاری کے ضمن میں جو منشور ہے اس کے خلاف عمل ہو… ان دونوں چیزوں میں انہوں نے قوم کو مار دیا ہے۔ ابھی ڈالر کی گراوٹ کے پس منظر میں بیرون ملک سے دوست ملک کی حیثیت سے ڈیڑھ ارب ڈالر آگیا ہے۔ اس کی پوری تفصیلات نہیں ہیں۔ امریکہ کا کیا مفاد تھا، ہمارا کیا مفاد ہے، اس رقم کے عوض ہم نے ان سے کیا وعدے کرلیے ہیں، اس کو بھی دیکھنا ضروری ہے۔ آئل اینڈ گیس کارپوریشن اور پاکستان پیٹرولیم کا سالانہ منافع 209 ارب روپے ہے اور یہ منافع بڑھ رہا ہے، لیکن جب آپ ان کے شیئرز بیچ دیں گے تو اگلے سال تو منافع نہیں ملے گا! اور نجکاری کا پیسہ بھی نہیں ملے گا۔ ٹیکس آپ بڑھا نہیں رہے تو اگلے سال تو آپ کا بجٹcollapse ہونے والا ہے اور جو اثاثے آپ نے بیچے ہیں اور بیچ رہے ہیں ان کو اگر دشمن ملک خرید لے تو آپ کی معیشت دشمنوں کے حوالے ہوجائے گی۔ اور اہم بات یہ ہے کہ حبیب بینک وغیرہ کا منافع روپے میں ہوتا ہے، اور جب ان اداروں کے شیئرز آپ بیچیں گے جو اچھا منافع دے رہے ہیں تو آپ کو یہ منافع بھی نہیں ملے گا۔ تو یہ ایک تماشا ہے۔ قوم کو سوچنا ہوگا کہ یہ کیوں ہورہا ہے۔ میں سمجھتا ہوں اگلے برسوں میں پاکستان میں ایک معاشی بحران آئے گا جس کو کوئی نہیں روک سکے گا۔ کیونکہ اِس سال مسلم لیگ(ن) کی حکومت نے جو بجٹ پیش کیا ہے اس میں 2600 ارب روپے ٹیکسوں کی وصولی دکھائی ہے۔1500ارب صوبوں کو چلے گئے تو بچے 11 سو ارب… جبکہ 12 سو ارب ان کو ایک سال میں سود دینا ہے۔ تو اس کا مطلب یہ ہے کہ آپ اپنی آمدنی سے سود بھی ادا نہیں کرسکتے تو پورا ملک کہاں سے چلائیں گے! تو بات یہ ہے کہ یہ ایک منظم کھیل ہے۔ انہوں نے ڈالر کو ضرورت سے زیادہ گرایا ہے تاکہ کامیابی کا تاج پہن لیں اور قوم کو اس بحث میں الجھادیا کہ یہ گرا کیسے ؟ اور بڑھا کیسے؟ تو انہوں نے نجکاری کا ڈراما رچانے اور ٹیکسوں کے مسئلے کو پیچھے ڈالنے کے لیے اس بحث میں ہمیں الجھایا ہے۔ یہ گریٹ گیم کا حصہ ہے کہ ہمارے اثاثے غیر ملکیوں کے پاس چلے جائیں۔

……٭……

ڈالر کی قیمت میں کمی کا رجحان جاری ہے۔ اس رجحان کے مستقبل میں پاکستان کی معیشت پر کتنے اچھے اور برے اثرات پڑیں گے یہ آنے والا وقت ہی بتائے گا۔ لیکن پاکستان کے مفاد پرست طبقہ اشرافیہ کے ماضی کو سامنے رکھتے ہوئے ڈاکٹر شاہد حسن صدیقی نے جن خدشات کا اظہار کیا اس پر سیاسی قیادت کو ضرور سوچنا ہوگا اور اس کے سدباب کے لیے سنجدہ عملی قدم اٹھانا ہوگا۔ اگر ایسا نہیں ہوا تو خدشہ ہے کہ آج انسانوں کا پیدا کردہ مصنوعی قحط جوآہستہ آہستہ، دبے قدموں، بڑی دھیرج سے وسیع و عریض علاقے کو اپنی لپیٹ میں لے کر موت سے ہمکنار کررہا ہے وہ مستقبل میں ملک کے کئی علاقوں کو تھر میں تبدیل کردے گا۔

Pakistan Economy : Devaluation of the dollar is fake? By Dr. Shahid Hassan
اے۔ اے۔ سیّد

Post a Comment

0 Comments