All About Pakistan

6/recent/ticker-posts

گرم پانیوں کی تلاش

سوویت یونین کی تند خُو فوجیں افغانستان کے کوہ و دمن میں برسوں سر پٹکنے کے باوجود پاکستان کو عبور کر کے گرم پانیوں تک نہ جا سکیں اور افغانستان میں رُسوا ہوکر دریائے آمو کے پار اس وصیت کے ساتھ واپس چلی گئیں کہ آئندہ کوئی افغانستان کا رخ نہ کرے۔ اس کے لوگ بہت بے رحم ہیں۔ لیکن سوویت یونین کے نرم مزاج پرندے گرم پانیوں تک ہر سال پہنچتے ہیں، اس سال بھی…

چنانچہ ہزاروں میل دور کی یخ بستہ ہواؤں میں دن رات بسر کرنے والے پرندے جب سردی کی بے پناہ شدت میں سُن ہونے لگتے ہیں تو انھیں فطرت بتاتی ہے یا کون بتاتا ہے کہ ان کے سائبیریا سے بہت دور مشرق کی گرم سر زمینوں میں ان کے لیے نیم سرد پانی والی جھیلیں ان کا انتظار کر رہی ہیں جہاں وہ کسی حد تک سردی کے موسم میں بھی گرمی سے لطف اندوز ہو سکتے ہیں اور ان کی پرواز میں سرد موسم دخل نہیں دیتا۔ بس اتنا کہ وہ چونکہ گرمی کے عادی نہیں ہیں تب بھی انھیں کسی حد تک وہ سردی بھی مل ہی جاتی ہے جو انھیں گرمی سے بچا لیتی ہے۔ جب میں وادیٔ سُون کی چھوٹی چھوٹی جھیلوں پر روسی سائبیریا سے آنے والے پرندوں کی اجتماعی پروازوں کو دیکھتا ہوں تو تعجب کرتا ہوں کہ ان کے وہ دوست کون ہیں جو انھیں ان گمنام پر امن جھیلوں کا پتہ دیتے ہیں اور ان کی غیر معمولی روسی سرد زندگی کو قابل برداشت بنا دیتے ہیں۔ میں نے مدتیں ہوئیں بزرگوں سے پوچھا کہ یہ رنگ رنگ کے پرندے کہاں سے آ جاتے ہیں تو ان تک جو غیر سائنسی روایتیں پہنچی تھیں وہ ان پرندوں کے سرد ترین زمینی علاقوں کا پتہ دیتی ہیں جہاں نہ جانے کون ان پرندوں کو ان ہزاروں میل دور کی جھیلوں کا پتہ دیتا ہے اور وہ سردی سے بھاگ کر ان کی طرف پرواز شروع کر دیتے ہیں۔

ان طویل اڑانوں میں راستے کی نہ جانے کتنی ہی جھیلوں کے کناروں پر سستاتے ہوئے اور کتنی ہی جھیلوں کو راستے میں چھوڑ کر ان کے اوپر سے گزرتے ہوئے وہ اپنی پسند کے آبی ٹھکانوں پر اتر آتے ہیں۔ شاید اس سے پہلے بھی وہ یہاں آئے ہوں اور انھیں یہ جھیلیں اچھی لگی ہوں اور یہاں شکاریوں سے امن بھی ملا ہو۔ وادیٔ سُون کی جھیلوں کے کناروں پر آباد لوگ ان پردیسی پرندوں کو خوبصورت مہمان سمجھتے ہیں۔ ایسے مہمان جو خوش منظر ہیں اور اپنے کھانے پینے کا بندوبست بھی خود ہی کرتے ہیں۔ اللہ کی یہ وہ آزاد مخلوق ہے جو سوائے موسم کے کسی کی محتاج نہیں۔ تیرنے کے لیے پانی چاہیے اور پرواز کے لیے صاف ستھری کھلی ہوا چاہیے، اس کے علاوہ قدرت نے اسے زندگی کے تمام سامان دے دیے ہیں۔ اس سال انھیں سردی تو ملی مگر بارشیں نہیں ملیں جو ان کی جھیلوں کو تروتازہ کرتی اور ان کے پانی کو صاف کرتی ہیں۔ یوں ان کا یہ سفر زیادہ پر لطف نہیں رہا۔ چنانچہ اطلاع ملی ہے کہ وہ اس سال وقت سے پہلے ہی واپسی کا سفر شروع کر رہے ہیں۔ ایک خط میں لکھا گیا ’’مگر ہم کہاں جائیں ان زمینوں کو چھوڑ کر، مٹی کی محبت میں۔‘‘

پرندے گرم علاقوں کے ہوں یا سرد علاقوں کے وہ دنیا کی انتہائی خوبصورت اور خوشگوار مخلوق ہیں جو کسی کو تنگ نہیں کرتیں بلکہ نظروں کو خوشیاں دیتی ہیں اور اگر کوئی بے رحم صیاد ان کے لیے جال لگا دے تو وہ اس میں پھنس کر اور ذرا سا پھڑپھڑا کر چپ ہو جاتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ انھیں غیب سے رزق کے ساتھ صبر بھی دیتا ہے۔ سیدنا حضرت علیؓ نے فرمایا ہے کہ جب پرندے صبح مجھ سے پہلے بیدار ہو جاتے ہیں تو میں شرمندہ ہو جاتا ہوں۔ سچ ہے کہ انسان کوئی بھی ہو وہ پرندوں کا مقابلہ نہیں کر سکتا۔ گرمیوں کے موسم میں جب میں کبھی گاؤں میں ہوتا ہوں تو درختوں پر رات بسر کرنے والے پرندے منہ اندھیرے جاگ جاتے ہیں اور زور زور سے چہچہاتے ہیں۔ ان کا شور اتنا بڑھ جاتا ہے کہ آپ اس میں سو نہیں سکتے۔ یہ شور و غل سورج کی پہلی کرنوں کے ساتھ گم ہو جاتا ہے۔ اور پرندے ناشتے کے لیے پرواز کر جاتے ہیں۔ مصر کا نابینا ادیب ڈاکٹر طہٰ حسین کہتا ہے کہ مجھے صبح ہو جانے کا احساس ہمیشہ ان پرندوں نے دلایا اور رات ہو جانے کا پتہ بھی درختوں کے یہی پرندے دلاتے ہیں جو ہوا کے کسی جھونکے پر اپنے گھونسلوں میں بہت ہلکی سی آواز نکالتے ہیں لیکن ہوا تیز ہو تو یہ بہت بے چین ہو جاتے ہیں۔ ان کی نیند میں یہ آوازیں بدل جاتی ہیں۔

میں ان آوازوں کو خوب جانتا پہچانتا ہوں لیکن میں اپنی نیند بے چین کرنے کے سوا اور کچھ نہیں کر سکتا۔ شہروں میں رہنے والے کیا جانیں کہ ان پرندوں، ہواؤں، درختوں کی شاخوں اور ان پر بنائے گئے آشیانوں کا آپس میں کیا رشتہ ہے۔ اس رشتے میں اتنی نفاست، راحت اور مسرت ہے کہ کوئی پرندہ ہی جانتا ہے یا درختوں کے پاس رات بسر کرنے والا کوئی حساس انسان۔ سردیوں کے موسم میں ہماری جھیلوں پر اتنی رونق ہوتی ہے جیسے یہاں کوئی خاندان پکنک منانے آیا ہو اور معصوم خوبصورت بچے تتلیوں اور پرندوں کی طرح اڑتے پھرتے ہوں۔ انتہائی پر لطف وہ صبح ہوتی ہے جب آپ اٹھتے ہیں تو کل رات تک کی خاموش جھیل کی سطح اس وقت پھڑک رہی ہوتی ہے کیونکہ اس کے پردیسی مہمان اس کے پانی سے کھیل رہے ہوتے ہیں، اس پر الٹی سیدھی پروازیں کر رہے ہوتے ہیں، اڑنے والے کیڑوں کو پکڑ رہے ہوتے ہیں اور ان سے ناشتہ کر رہے ہوتے ہیں۔ صبح کرنے کے بعد یہ پرندے اپنے اس نئے ٹھکانے پر پرواز جاری رکھتے ہیں جیسے اس نئے ماحول کو اپنا رہے ہوں، سیر کر رہے ہوں، اسی طرح موسم کے ساتھ ساتھ ان کی پروازیں جاری رہتی ہیں تا آنکہ وہ دن آ جاتے ہیں جب وہ یہاں سے رخصت ہونے لگتے ہیں لیکن ان کی آمد کے برعکس ان کی واپسی اچانک نہیں ہوتی۔ وہ ٹولیوں میں واپسی کا سفر اختیار کرتے ہیں جیسے اس الوداعی ملاقات میں وہ آئندہ سال کی اپنی آمد کی خبر دے رہے ہوں۔

سندھ کا ایک ماضی کا گمشدہ شہر ہے بھنبھور جسے میں نے بلوچستان کا لکھ دیا تھا۔ ماضی کے اس شہر کے پڑوسی کا پیغام ملا ہے کہ بھنبھور سندھ کے ضلع ٹھٹھہ کی تحصیل میر پور چاکر کا ماضی کا ایک شہر تھا جو ماضی کے پردوں میں گم ہو چکا ہے۔ میں نے یہاں پنجاب میں اس شہر کا تذکرہ اپنے لوک گیتوں میں سنا۔ نہ جانے اتنی دور کا یہ شہر سسی پنوں کی عاشقانہ داستان والا یہ شہر ہم تک بھی کیسے پہنچ گیا کہ

’’تیرا لُٹیا شہر بھنبھور نی سسیے بے خبرے‘‘

عبدالقادر حسن


بشکریہ روزنامہ 'ایکسپریس

 

 

 

Post a Comment

0 Comments