All About Pakistan

6/recent/ticker-posts

آواران کی گلیوں میں

 کراچی سے آواران روانگی کے لیے شہر کے مختلف راستوں سے جب گذر ہوا تو جگہ جگہ نئے کپڑے پہنے ہوئے بچے اور بڑے نظر آئے۔ ان گلیوں میں جگہ جانوروں کی قربانی اور ان کی کھالوں کے عطیے کے لیے بینر نظر آئے۔ یہ منظر دیکھ کر ہم آگے بڑھتے رہے۔ بلوچستان کے پہلے شہر حب میں تو مٹھائی کی دکانوں اور بیکری پر لوگوں کا ہجوم نظر آیا لیکن اس کے آگے جیسے خوشیوں اور رنگ مدہم ہو تےگئے۔ آر سی ڈی شاہراہ سے آواران کی طرف مڑتے ہی زمین کی ناہمواری اور پہاڑی سلسلہ دیکھ کر ہی اندازہ ہوجاتا ہے کہ یہ درد کا دیس ہے۔ پندرہ روز قبل بیلہ چوک پر ہمیں ایف سی کے کئی اہلکار نظر آئے تھے جو آگے جانے کی اجازت نہیں دے رہے تھے لیکن عید کے روز چوکی میں صرف ایک اہلکار نظر آیا جس نے جھک کر گاڑی کے اندر جھانکا مگر روکا نہیں۔ درد کے دیس میں "جب پچھلی مرتبہ ہم یہاں سے گزرے تھے تو آزاد بلوچستان کے جھنڈے نظر آتے تھے وہ اب موجود نہیں تھے۔

 مقامی لوگوں نے بتایا کہ ان جھنڈوں کو ہٹایا گیا ہے۔" یہ ایف سی پر تنقید کا اثر تھا یا اہلکار عید کی چھٹیوں پرگئے ہوئے تھے؟ کچھ سمجھ میں نہیں آیا۔ راستے میں وہی چرواے، کچے گھر اور ویران سڑک ہمارا استقبال کرتی رہی۔ اسی طرح ہم جھاؤ کیمپ پہنچے یہاں بھی ایف سی کا قلعہ نما کیمپ ہے لیکن وہاں بھی کوئی نظر نہیں آیا۔ جب ہمیں پچھلی مرتبہ ہم یہاں سے گزرے تھے تو آزاد بلوچستان کے جھنڈے نظر آتے تھے وہ اب موجود نہیں تھے۔ مقامی لوگوں نے بتایا کہ ان جھنڈوں کو ہٹایا گیا ہے۔ آواران سے باہر ایف سی کی چیک پوسٹ پر ایک اہلکار نے روکا اور پوچھا کہ ’سر کہاں سے آ رہے ہیں، کہاں جائیں گے‘۔ ہم نے بتایا کہ کراچی سے آئے ہیں آواران جا رہے ہیں۔ یہ نوجوان بالوں اور شکل وہ صورت سے حکیم اللہ محسود سے کافی مشہابت رکھتا تھا۔ واپسی پر مجھ سے نہ رہا گیا اور میں نے اس سے پوچھ ہی لیا ’کیا تم محسود ہو۔‘ اس نے بتایا کہ وہ بروہی ہے اور بڑے بال رکھنے کی خاص اجازت لے رکھی ہے۔ آواران شہر میں ہمارا پہلا سٹاپ ہپستال تھا، جہاں پاکستان فوج کے بڑے بینر کے علاوہ الخدمت کے بھی بینر واضح طور پر لگائے گئے تھے۔ یہاں ایک شخص اپنی بیٹی کو منگولی سے لایا تھا۔ مشکے گجر کے قریب اس شہر کے پاس ایف سی کا کیمپ بھی موجود ہے لیکن کہیں بھی طبی سہولتیں دستیاب نہیں۔ 

عالمی ادارے غائب، مذہبی تنظمیں جگہ جگہ "ماضی میں زلزلہ متاثرین کی مدد کے اقوام متحدہ، آکسفیم، برطانیہ اور امریکہ میں رہنے والے مسلمانوں کے اداروں اور دیگر غیر ملکی اداروں کے کیمپ اور بینر نظر آتے تھے لیکن انہیں کام کرنے کی اجازت نہیں مل سکی اور ان کی جگہ مذہبی اداروں نے لے لی ہے" اس نے بتایا کہ اس کی بیٹی کو پیٹ میں درد کی شکایت ہے۔ زیادہ تکلیف ہوئی تو ہزار روپیہ ادھار لے کر موٹر سائیکل پر یہاں پہنچا ہے۔ ہپستال میں ڈاکٹر امیر بخش سے ملاقات ہوئی ۔ یہ وہی ڈاکٹر تھا جس نے زلزلے کے روز اکیلے چوبیس گھنٹے ڈیوٹی کی تھی اور عید کے روز بھی وہ ہی اکیلا ڈاکٹر تھا۔ اگلے کتنے روز یوں ہی ڈیوٹی کرنی تھی یہ اس کو معلوم نہ تھا۔ ہپستال سے باہر سڑک پر چند بچے تھیلیوں میں گوشت لےکر جاتے ہوئے نظر آئے۔ان سفید رنگ کے شاپنگ بیگوں پر الخدمت تحریر تھا۔ جماعت اسلامی کے اس فلاحی ادارے کی نارنجی کوٹی پہنے ہوئے نوجوانوں سے ملاقات ہوئی جو مٹیاری، کشمور، کندھ کوٹ اور سندھ کے دیگر شہروں سے آئے تھے۔ الخدمت کے رضاکاروں نے ہمیں بتایا کہ وہ متاثرین میں گوشت تقسیم کر رہے ہیں اور فی فرد پانچ سے چھ کلو گوشت دے رہے ہیں۔ جماعت الدعویٰ کے فلاحی ادارے فلاح انسانیت کے بھی کئی رضاکاروں نے عید آواران میں ہی گذاری تھی۔ انہوں نے یہی جانور قربان کیے اور گوشت تقسیم کیا۔ آوران شہر میں الخدمت اور فلاح انسانیت کے علاوہ الرحمت ٹرسٹ اور الخیر ٹرسٹ کے بھی بینر نظر آئے۔

 الرحمت ٹرسٹ پر جیش محمد کے سربراہ مسعود اظہر کا نام تحریر تھا۔ ان دونوں اداروں نے متاثرین کی کیا مدد کی ہے یہ معلوم نہیں ہوسکا۔ عام طور پر آفات سے متاثرہ علاقوں میں اقوام متحدہ، آکسفیم، برطانیہ اور امریکہ میں رہنے والے مسلمانوں کے اداروں اور دیگر غیر ملکی اداروں کے کیمپ اور بینر نظر آتے تھے لیکن انہیں کام کرنے کی اجازت نہیں مل سکی اور ان کی جگہ مذہبی اداروں نے لے لی ہے۔

ریاض سہیل بی بی سی اردو ڈاٹ کام

 

Enhanced by Zemanta

Post a Comment

0 Comments