All About Pakistan

6/recent/ticker-posts

گورنر ہاﺅس میں ایسٹ انڈیا کمپنی


پہلے تو ہم نے ایک گورنر امپورٹ کرنے کی کوشش کی مگر رولا پڑ گیا کہ وہ پاکستان کا وفادار نہیں ہوگا ، ملکہ معظمہ کا خدمت گار ثابت ہو گا۔ مرتا کیا نہ کرتا، امپورٹڈ آئٹم کا لیبل بدل دیا گیا اور یوں محمد سرور لاٹ صاحب بن گئے۔

مگر وہ اپنی اصلیت نہیں بھول سکے۔ ان کے گرد ایک منڈلی تو لگی ہوئی ہے مگر ساری دساور کی۔ایک دن سنا کہ انہوں نے گلاسگو کے ایک نوجوان کو اپنا میڈیا کوآرڈی نیٹر لگا لیا ہے۔یہ نوجوان کوئی تیس برس سے ایک پاکستانی اخبار کے لندن ایڈیشن کی نمائندگی کر رہے ہیں اور ظاہر ہے گلاسگو میں بیٹھ کر انہوں نے رج کر سرور کی خدمت کی ، اب ان کو صلہ دینے کا وقت آیا ہے اور گورنر صاحب نے انہیں لاہور میں لا بٹھایا ہے مگر وہ کام کریں گے یورپ اور امریکہ کے لئے،وہ گجرات کے رہنے والے ہیں، ایک روز گورنر ہاﺅس میں تھے اور ٹہکا جمانے کے لئے ماسیوں پھوپھیوں کو بڑے گھر کی سیر کرار رہے تھے۔

چند روز پہلے مشہود شورش کا رات گئے فون آیا، میں اس وقت تک سو چکا تھا، اگلے دن میں نے جوابی کال کی ، کہنے لگے کہ گورنر صاحب نے کچھ صحافیوں کے ساتھ یاد کیا ہے، وہاں پہنچ تو گئے، کوئی پندرہ اصحاب ہوں گے، پتہ چلا کہ گورنر صاحب اجمل نیازی کو الگ بریفنگ دے رہے ہیں ، ان سے فارغ ہو کر ہمیں درشن کروائیں گے، ہمارے ساتھ ہی ڈاکٹر امجد ثاقب بھی گورنر سے وقت لے کر اذن باریابی کے منتظر تھے ، مگر ان سے گورنر صاحب نے کھڑے کھڑے ہی بات کی۔اس نفسا نفسی میں میں نے ایک جوان مگر پر اعتماد خاتون کو دیکھا ، میں نے سوچا ، وہ بھی بڑے صاحب سے ملنے کی منتظر ہوںگی تو ان کو پیش کش کی کہ وہ ہمارے ساتھ ہی بیٹھ جائیں اور موقع پا کر اپنی بات کر لیں۔ ان سے یہ پوچھنے کا موقع مل گیا کہ ان کا کیا شغل ہے، کہنے لگیں کہ وہ گورنر صاحب کے ساتھ کام کرتی ہیں، اور ایک بہت بڑا منصوبہ ہے فلٹر پانی کے پلانٹ لگانے کا،اس میں ہاتھ بٹاتی ہیں، ان کا بھی تعلق برطانیہ سے ہے اور وہ بغیر تنخواہ کے انسانیت کی خدمت کے لئے گھر بار چھوڑ کریہاں آئی ہیں، پاکستان میں آنے کی کشش تو تحریک انصاف بنی تھی، پر اب وہ ن لیگ کے ساتھ ہیں ، انسان نے نیکی اور بھلائی کرنی ہو تو پھر مخصوص پارٹی کی کیا ضرورت، جہاں داﺅ لگ جائے۔

اس سے پہلے کسی ہوٹل کے فنکشن میں گورنرکے ایک مصاحب نے اپنا تعارف کرواتے ہوئے کہا تھا کہ وہ اوور سیز پاکستانیوں کے مسائل کے حل کے لئے گورنر صاحب کی مدد کرتے ہیں اور اس سلسلے میں ایک سپیشل سیل کے سربراہ ہیں۔

ہمارے ہاں پہلے تو تفتیشی صحافت کا رواج ہوتا تھا، اب بھی خال خال یہ کام کچھ نئے لوگ کر رہے ہیں ، ان میں سے کوئی صاحب صرف لاہور کے گورنر ہاﺅس پر اسٹوری کریں تو وہ ٹھیک ٹھیک بتا سکتے ہیں کہ محمد سرور کے گورنر بننے کے بعد سے کتنے اوور سیز پاکستانوں کا آناجانا لگا ہوا ہے، تو ایک دلچسپ صورت حال سامنے آئے گی، جہاں تک میں جانتا ہوں ، گورنر کی اہلیہ برطانوی شہریت کی حامل ہیں ان کے دو نوں بیٹے اور ایک بیٹی بھی وہیں کے شہری ہیں اور اگلے بچے تو پیدا ہی وہیں ہوئے ہیں اور انگریزی کے سوا شاید ہی کوئی پاکستانی زبان جانتے ہوں گے، گورنر کا حلف لینے کے بعد ایک ٹی وی پر ایک ننھے بچے نے اپنے دادا کے بارے میں شستہ انگریزی میں کلمات ریکاراڈ کروائے تھے۔یہ سب لوگ یا ان کی بڑی تعداد گورنر ہاﺅس کو مسکن بنا چکی ہو گی۔ مجھے کسی نے یہ بھی بتایا ہے کہ گلاسگو میں جتنا بزنس پھیل سکتا تھا، وہ تواللہ نے برکت ڈال دی، اب مزید برکت کے لئے پاکستان میں مواقع تلاش کئے جا رہے ہیں۔ ابھی تو نجکاری بھی ہونی ہے۔

پاکستانی آم دساور میں دھڑا دھڑ مقبول ہو رہا ہے۔ پاکستان کو جی ایس پی پلس کا درجہ حاصل ہونے سے یورپی منڈیاں کھل گئی ہیں، اب ٹیکسٹائل کا مال جائے گا اور اس پر کوئی ٹیکس وصول نہیں کیا جائے گا، گورنر صاحب نے بتایا کہ اس کے لئے انہوں نے دن رات محنت کی ہے اور پانچ مرتبہ ذاتی خرچ پر یورپ کا دورہ کیا ہے۔ میں نے بہت یرا کہا کہ یہ درجہ تو پاکستان کو پہلے بھی حاصل رہا ۔پھر یورپ اور امریکہ کو گلہ ہوا کہ پاکستان وار آن ٹیرر میں ڈبل گیم کر رہا ہے اور پھر ہمیں اس پسندیدہ لسٹ سے نکال باہر کیا۔ اب یہ درجہ حاصل کرنے کے لئے زرداری دور سے تگ ودو جاری ہے، وہ تو یورپی یونین کے اجلاس سے خطاب بھی کر چکے، اس سال مارچ میں اصولی فیصلہ بھی ہو گیا، پھر تو بعض رسمی مراحل سے گزرنا تھا ، وہ پورے ہو گئے تواس میں آپ کا کمال کیا ہے۔ گورنر صاحب نے کہا کہ ووٹنگ کے مرحلے تک ناامیدی کے بادل منڈلا رہے تھے، فرانس جیسا طاقتور ملک ہمارا مخالف تھا، بھارت اور بنگلہ دیش کی شرارتیں بھی رنگ دکھا رہی تھیں، مگر میں نے یورپی یونین کے مسلمان رکن سجاد کریم کے ذریعے زبر دست لابنگ کی اور یوں ایک ناممکن کام ہو گیا۔

گورنر کا کہنا تھا کہ اس میں میرا کوئی ذاتی کمال نہیں ، اصل انشی ایٹو وزیر اعظم کا ہے جن کی قیادت اور گورننس کی خوبیوں کی بدولت یہ مثبت فیصلہ سامنے آیا۔سوال ہوا کہ جب ملک میں گیس اور بجلی نہیں ہے تو ٹیکسٹائل سیکٹر اس کا کیا فائدہ اٹھا سکتا ہے، جواب ملا کہ وزیر اعظم نے ان مشکلات کو دور کرنے کا ٹھوس وعدہ کیا ہے۔ میں نے گرہ لگائی کہ آپ ایک ایسے فیصلے پر اترا رہے ہیں جس کا مطلب سراسر غریب ملکوں کے کشکول میں خیرات ڈالنا ہے، گورنر نے جواب دیا کہ یہ تو ٹریڈ ہے، اس میں منافع ملے گا اور اس ٹریڈ کے لئے رعائت حاصل ہوئی ہے، مطلب یہ ہے کہ کان دائیں طرف سے نہ پکڑیں، بائیں طر ف سے پکڑ لیں، ہمارے ساتھ جن دیگر ملکوں کو یہ رعائت ملی ہے ،ان کے نام سن کر ہم پاکستانیوں کا سر شرم سے جھک جائے گا کہ ہمیں کس قدر پس ماندہ ملکوں کے ساتھ نتھی کر دیا گیا ہے۔ میں یہ نام یہاں نہیں لکھوں گا، اپنی نوجوان نسل کے خوابوں کو چکنا چور نہیں کرنا چاہتا۔ گورنر کے خوابوں کا تو کچھ نہیں بگڑے گا، انہوں نے عارضی طور پر میلہ لوٹنے کے لئے برطانوی شہریت کو خیر باد کہا ہے مگر ان کے بیوی بچے اور اہالی موالی سب برطانیہ سے امپورٹ کئے جا رہے ہیں، کیاپاکستان میں کوئی ایساہنر مند نہیں جو صاف پانی کے پلانٹ نصب کر سکے، اسی کے عشرے میں جنرل ضیا الحق نے ایف سولہ کے پرزے ڈسکہ سے بنو الئے تھے، ہم نے جے ایف تھنڈر بنا لیا اور ڈرون بھی بنا لیا،ایک فلٹر پلانٹ لگانے کے لئے ہمیں گورنر ہاﺅس میں ایسٹ انڈیا کمپنی کھڑی کرنا پڑی۔

مجھے اپنے وطن کے ہنر مندوں کی لیاقت پر اعتماد ہے، گورنر صاحب اپنی ایسٹ انڈیا کمپنی کی بساط لپیٹیں، ہمیں یہ ریمنڈ ڈیوس نہیں چاہیئں، میرے ملک کے نوجوان"تاروں پر کمندیں ڈال سکتے ہیں۔

 اسد اللہ غالب

بشکریہ روزنامہ "نوائے وقت"

Enhanced by Zemanta

Post a Comment

0 Comments