All About Pakistan

6/recent/ticker-posts

لاپتہ افراد کا المیہ




…حبیب بلوچ…
اگر میرے بھائی کے ہاتھوں کوئی قصور سرزد ہوا ہے تو بے شک جرم ثابت ہونے پر اسے قانون کے مطابق سزا دی جائے مگر بنا کسی الزام کے اسے سالوں غائب رکھنا، تشدد کا نشانہ بنانا کہاں کا انصاف اور کہاں کی انسانیت ہے، یہ الفاظ ایک دکھیاری بہن اور بلوچستان کی بیٹی فرزانہ مجید کے اپنے لاپتہ بھائی کے بارے میں تھے۔محدود مواقع اور نامسائد حالات کے باوجود بلوچستان یونیورسٹی سے ایم ایس سی فلسفہ کرنے والی فرزانہ مجید ان دنوں اپنی پڑھائی سے کوسوں دور لاپتہ افراد کی بازیابی کے لیے کوئٹہ سے کراچی کے لیے نکالی جانے والی لانگ مارچ کا حصہ ہے،کہ جس میں شرکت کرنے والوں میں خواتین اور بچے بھی شامل ہیں، فرزانہ مجید اپنے بھائی اور بلوچستان یونیورسٹی کے ایم اے انگریزی کے طالب علم ذاکر مجید کے اچانک غا ئب ہوجانے کے بعد سے اس کی بازیابی کے لیے سرگرداں ہے، کراچی ہو یا اسلام آباد ، کوئٹہ ہو یا حب، سخت گرمی کا مہینہ ہو یا کڑاکے کی سردی وہ وائس فار دی مسنگ بلوچ پرسنز کے پلیٹ فارم سے اپنے بھائی سمیت ہزاروں دیگر لاپتہ افراد کی بازیابی کے لیے جدوجہد میں مصروف عمل ہے۔لانگ مارچ کے دیگر شرکا کی طرح فرزانہ مجید بھی ماما عبد القدیر کی قیادت میں کوئٹہ سے کراچی تک تقریباً سات سو کلو میٹر کا فاصلہ پیدل طے کررہی ہے، ایک آدھ کو چھوڑ کر تقریباً تمام قومی، علاقائی اور بین الاقوامی میڈیا کی جانب سے بائیکاٹ اور پیروں میں پڑنے والے چھالے مارچ کے شرکاء کے حوصلوں کو پست نہ کرسکے۔

 

فرزانہ مجید کی آواز سے پہلی بارمیرا واسطہ اس وقت پڑا تھا جب ٹیلیفون پر رابطہ کرکے انہوں نے اپنے بھائی کے لاپتہ ہونے یا کیے جانے کے بارے میں اطلاع دی تھی۔ ، یہ ان دنوں کی بات ہے کہ جب وہ اپنے بھائی ذکر مجید کے غائب ہوجانے کے بعد میڈیا کے نمائندوں سے رابطہ کرکے انہیں صورتحال سے آگاہ کررہی تھیں۔ وہ دن ہے اور آج کا دن فرزانہ مجید ہمیشہ ہر فورم پر بلوچستان کے لاپتہ افراد کی بازیابی اور متاثرین کی آواز بن کر سامنے آئی ہے۔لانگ مارچ کی قیادت کرنے والے ماما عبد القدیر کہتے ہیں کہ ملک بھر کے پریس کلب اور پارلیمنٹ ہاؤس کے سامنے احتجاج کرتے کے بعد انہوں نے لاپتہ افراد کی بازیابی کی آواز کو مزید موثر بنانے اور عالمی برادری تک پہنچانے کے لیے پیدل مارچ کا فیصلہ کیا۔شرکاء روزانہ صبح آٹھ بجے پیدل مارچ کا آغاز کرتے ہیں اور دن بھر تقریباً تیس کلومیٹر چلتے ہیں، شام چھ بجے سفر ترک کرکے پڑھا ؤ ڈالتے ہیں، تقریباً ساڑھے چار سو کلو میٹر سے زائد د سفر طے کرتے ہوئے فرزانہ مجید سمیت مارچ کے تقریبا تمام شرکاء کے پیروں میں چھالے پڑچکے ہیں اور انہیں چلنے میں شدید دشواری کا سامنا ہے مگر اس کے باوجود وہ کہتی ہیں کہ یہ تکلیف انہیں بہت ہی معمولی دکھائی دیتی ہے کیونکہ ان کے بھائی کی جدائی کا غم ان کے خاندان خصوصا ان کی والدہ کے لیے اس سے کہیں زیادہ اور تکلیف دہ ہے۔ مارچ کی قیادت وائس فار مسنگ بلوچ پرسنز کے وائس چیئرمین عبد القدیر بلوچ کے مطابق کراچی پہنچ لاکر لانگ مارچ کے شرکاء وہاں علامتی بھوک ہڑتالی کیمپ قائم کریں گے جبکہ اس سے قبل یہ علامتی بھوک ہڑتالی کیمپ تقریباً چار سال سے جاری ہے۔میڈیا رپورٹس کے مطابق بلوچستان میں لوگوں کی جبری گمشدگی کا باقاعدہ آغاز دو ہزار دو سے شروع ہوا جبکہ 2010 سے مسخ شدہ لاشوں کی برآمدگی کا سلسلہ بھی شروع ہوا ہوچکا ہے اور سرکاری اعدادوشمار کے مطابق اب تک ملنے والی ایسی لاشوں کی تعداد 592 ہے۔وائس فار مسنگ بلوچ پرسنز کے وائس چیئرمین قدیر بلوچ کے مطابق’2002 سے لیکر اب تک لاپتہ افراد کی تعداد اٹھارہ ہزار ہے۔

حکومتی ذرا ئع کا دعویٰ ہے کہ موجودہ حکومت کے قیام کے بعد لاشیں ملنے کے واقعات میں کمی آئی ہے مگر قدیر بلوچ اس سے اتفاق نہیں کرتے اور ان کا کہنا ہے ’موجودہ حکومت کے دور میں لوگوں کو لاپتہ کرنے میں تیزی آئی ہے۔ پہلے دو دو تین تین افراد کو اٹھایا جاتا تھا لیکن موجودہ دور میں درجنوں افراد کو ایک ساتھ اٹھایا جا رہا ہے۔بلوچستان سے تعلق رکھنے والی سیاسی، سماجی تنظیمیں قانون نافذ کرنے والے اداروں پر الزام لگاتے ہیں کہ بہت زیادہ تنقید کی وجہ سے انہوں نے اپنی حکمت عملی بدل دی ہے۔ اب وہ لوگوں کو لاپتہ کرنے اور بعد ازاں لاپتہ افراد کی مسخ شدہ لاشیں پھینکے کے عمل میں براہ راست ملوث ہونی کی بجائے یہ کام اپنے پے رول پر موجود افراد کے تعاون سے تشکیل دیے گئے ایسے ڈیتھ اسکواڈ کے ذریعے کرواتے ہیں، جو بلا خوف و خطر ان کے احکامات پر عملدرآمد کرتے ہیں، دوسری جانب عدالت بھی لاپتہ افراد کیس اور بلوچستان امن عامہ کیس کی سماعتوں کے دوران ایف سی اور حساس اداروں کے اہلکاروں اور افسران کی سرزنش کرچکی ہے مگر مجال ہے کہ کوئی ٹس سے مس ہوا ہو۔ کہنے کو تو ہم ایک قوم ہیں، اصل میں ہم ایک ہجوم ہیں جنہیں بوقت ضرورت قوم کا نام دیا جاتا ہے، مگراسی قوم کی خواتین اور بچے جب اپنے پیاروں کی بازیابی کے لیے سڑکوں پر نکلتے ہیں تودوسروں کو نہ تو ان کی پرواہ ہے اور نہ فکر تو ان حالات میں کہنے والے درست ہی کہتے ہیں کہ کہاں کی قوم اور کہاں کی قومیت؟ - 

Post a Comment

0 Comments