All About Pakistan

6/recent/ticker-posts

درسگاہیں ویران ہوتی جارہی ہیں



 
پروفیسر سیما سراج
علم، تعلیم اور محبت ہمیں سوچنے پر مجبور کرتے ہیں۔ لیکن کیا میری سوچ سے بڑی تبدیلی ممکن ہے؟ اگر ہم میں سے ہر شخص اسی طرح سوچنے لگا تو یقینا قلم رک جائیں گے اور سوچیں منجمد ہوجائیں گی۔ نہیں، میں روشنائی خشک نہیں ہونے دوں گی۔ میں اس سوال کا جواب ضرور ڈھونڈوں گی اور تعلیم یافتہ طبقہ سے بھی پوچھوں گی کہ آخر ہمارے تعلیمی ادارے ویران کیوں ہورہے ہیں؟ مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ ایک زمانے میں کلاسوں میں طالبات کی تعداد اتنی ہوتی تھی کہ وہ دیوار کے ساتھ کھڑے ہوکر لیکچر سنتی تھیں۔ لائبریری بھری ہوتی تھی اور ہر شعبے میں اساتذہ کی ایک بڑی تعداد موجود ہوتی۔ اب (سرکاری کالجوں کی) کلاسوں میں طالب علموں کی تعداد  دیکھ کر افسوس ہوتا ہے۔ تعلیمی میدان کی رونقیں ختم ہوتی جارہی ہیں۔

 ہر سال طالب علم پکنک کے لیے جاتے تھے، مگر اب کیوں نہیں؟ کتب خانوں میں کتابوں کی طلبی اور نوٹس کی تیاری کا عمل سست کیوں پڑ گیا ہے؟ رشوت و سفارش کا کلچر تیزی کے ساتھ پھیل رہا ہے۔ کہیں ایسا تو نہیں کہ …؟ خرید و فروخت کا کاروبار عروج پر ہے۔ کہیں ایسا تو نہیں کہ…؟ میڈیا ہر جگہ موجود ہے اور چیخ رہا ہے۔ مسئلہ و مسائل، سوالات و جوابات، بحث و مباحثہ… مگر حل کیا ہے! کیا کوئی فریق آپ کی بات سننے کے لیے تیار ہے؟ اس وقت میرے ذہن میں صرف ایک سوال ہے: طالب علموں کی حاضری کالجوں میں کم کیوں ہوتی جارہی ہے؟ ہر سوال کے ساتھ ایک جواب ضرور ہوتا ہے۔ کہیں ایسا تو نہیں کہ والدین نے دلچسپی لینی چھوڑ دی ہو؟ لیکن نہیں، میں نے تو ایسے والدین بھی دیکھے ہیں جو بے انتہا محنت کے بعد اپنے بچوں کی اعلیٰ تعلیم کی فیس ادا کرتے ہیں۔ لیکن میری مراد تمام والدین سے نہیں ہے، بلکہ ان والدین سے ہے جو بچوں کو داخل کرانے کے بعد اپنی تمام تر ذمہ داریوں سے سبکدوش ہو جاتے ہیں۔ داخلے کے وقت والدین خاص طور پر خواتین کی بڑی تعداد موجود ہوتی ہے جب کہ متعلقہ بچی غیر حاضر… لیکن کلاسیں شروع ہونے کے بعد سال بھر پلٹ کر خبر نہیں لیتے کہ آیا ان کی بچیوں کی تعلیمی صورت حال کیا ہے، وہ کلاسیں باقاعدگی سے لے رہی ہیں یا نہیں، ٹیسٹ پیپر میں ان کی دلچسپی کس حد تک ہے۔ اگر وہ کہتی ہیں کہ ٹیچر کلاس نہیں لیتی، پڑھائی نہیں ہوتی تو والدین متعلقہ پرنسپل سے رابطہ نہیں کرتے۔ کالجوں میں اکثر جگہ پڑھائی نہیں ہوتی یا دوسرے لفظوں میں کلاسز نہیں ہوتیں۔ اگر ٹیچر موجود ہے اور کلاس نہ ہو تو طالبات کی ذمہ داری ہے کہ وہ براہِ راست پرنسپل سے رابطہ کریں۔ اور اگر مضمون کی ٹیچر موجود نہیں ہے تو پھر یہ مسئلہ کالجوں میں اساتذہ کی کمی کا ہے۔ ریٹائرمنٹ، ترقی کے بعد اساتذہ کے تبادلے اور نئے تقرر نہ ہونا، من پسند کالجوں میں تقرری… یہ عوامل بھی نظرانداز نہیں کیے جاسکتے۔
طالب علم اور کالج کے درمیان جو فاصلہ بڑھ رہا ہے اس کی وجوہات  خوف و ہراس، ملکی صورت حال، ڈاکے، فائرنگ، بم دھماکے، ٹارگٹ کلنگ، احتجاج، ہڑتال، تشدد، ہولناک خبریں بھی ہیں۔ کیا ایسی صورت حال اور جلائو گھیرائو کے ماحول میں والدین بچوں، خاص طور پر بچیوں کو گھر سے باہر روزانہ تنہا بھیج سکتے ہیں؟ یہی وجہ ہے کہ طالبات کی تعداد میں روز بروز کمی واقع ہورہی ہے۔ خاص طور پر اُن تعلیمی اداروں میں جو حساس علاقوں میں واقع ہیں۔
داخلہ فارم، رجسٹریشن اور امتحانی فارم… کیا ان کے حوالے سے ہم مہنگائی 
کے عنصر کو نظرانداز کرسکتے ہیں؟
دورِ حاضر میں انسان کو دو وقت کی روٹی بھی میسر آجائے تو غنیمت ہے، ان
 حالات میں والدین بچیوں کو کالج میں داخل تو کرا دیتے ہیں لیکن روزانہ کی آمدورفت کا کرایہ ایک مسئلہ بن جاتا ہے۔ متوسط گھرانوں کے والدین کی آمدنی سفید پوشی کا بھرم رکھنے کے لیے ہی ناکافی ہوتی ہے۔ روزانہ پیٹرول کی قیمت میں اضافہ ہورہا ہو تو کرائے میں اضافہ ناگزیر ہے۔ اگر تین یا چار بچے زیر تعلیم ہیں تو ماہانہ کل رقم (کرایہ) کی ادائیگی معمولی تنخواہ میں ناممکن ہے۔ اکثر بچیوں کو دیکھا گیا ہے کہ گھریلو حالات کی وجہ سے ملازمت کر لیتی ہیں، اس لیے باقاعدہ حاضری ناممکن ہوجاتی ہے اور درسگاہ کے سالانہ نتائج متاثر ہوتے ہیں۔

Post a Comment

0 Comments